تشریح:
(1) حافظ ابن حجرؓ نے ابن منیر کے حوالے سے امام بخاری ؒ کا اس عنوان سے مقصد بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ دفن کے آداب کا لحاظ رکھیں، شوروغل اور زمین پر زور زور سے پاؤں نہ ماریں، میت کے ساتھ وہی سلوک کریں جو سوئے ہوئے آدمی سے کیا جاتا ہے، نیز یہ دفن کے بعد سوال و جواب کے جلد شروع ہونے سے کنایہ ہے کہ دفن سے فارغ ہونے والے ابھی قریب ہی ہوتے ہیں کہ اس سے باز پرس شروع ہو جاتی ہے۔ صحیح بخاری کی حدیثِ اسماء میں یہ الفاظ ہیں:’’تمہارا علم اس شخص کے متعلق کیا تھا؟‘‘ (حدیث: 86) اور حدیث انس میں ہے کہ ’’تو دنیا میں اس شخص کے متعلق کیا کہا کرتا تھا؟‘‘ (2) ان احادیث سے بعض حضرات نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ قبر میں خود تشریف لاتے ہیں اور میت سے سوال جواب کے وقت آپ کو سامنے کیا جاتا ہے، حالانکہ اس سے صرف استحضار ذہنی مراد ہے، یعنی وہ نقشہ جو آدمی کے دل و دماغ میں ہوتا ہے، اس کا اظہار مقصود ہے، جیسا کہ ہرقل نے ایک دفعہ حضرت ابو سفیان ؓ سے سوال کیا تھا: ’’تم میں سے نسب کے اعتبار سے کون اس شخص کے قریب تر ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، بدءالوحي، حدیث:7) جبکہ رسول اللہ ﷺ اس مجلس میں موجود نہیں تھے۔ وہاں موجود نہ ہونے کے باوجود آپ کے لیے اشارہ قریب "هٰذا" استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ میت کا جواب بھی اس کا مؤید ہے، وہ جواب میں کہے گا کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ سوال و جواب کے وقت رسول اللہ ﷺ کے وہاں موجود ہونے کے متعلق کتاب و سنت میں کوئی دلیل نہیں۔ اگر آپ کی شخصیت کو سامنے کر دیا جائے تو ابوجہل کے لیے تو وجودی معرفت بہت آسان ہے، کیونکہ اس نے آپ کو دیکھا ہوا ہے جبکہ آپ کے بعد آنے والے اہل ایمان کے لیے وجودی معرفت بہت مشکل ہو گی، کیونکہ انہیں تو آپ کی رؤیت حاصل نہیں ہوئی، حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہو گا۔ مومن کی معرفت ایمان پر موقوف ہے جس کا تعلق باطن سے ہے اور کافر وجودی معرفت کے باوجود پہچان سے قاصر رہے گا، کیونکہ اس کا دل معرفت ایمان سے خالی ہے۔ (3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس قبر میں میت کو دفن کیا جاتا ہے سوال و جواب کا سلسلہ بھی وہیں جاری رہتا ہے، پھر راحت و عذاب کا احساس بھی اسی قبر میں ہو گا۔ بعض فتنہ پرور لوگوں نے برزخی قبر کا شاخسانہ قائم کیا ہے جس کا کتب حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔ جس شخص کو قبر نہ مل سکے، یعنی وہ پانی میں غرق ہو کر سمندری جانوروں کی خوراک بن گیا یا وہ جل کر راکھ ہو گیا یا کسی حادثے میں اس طرح ریزہ ریزہ ہوا کہ اس کے اجزاء نہ مل سکے ہوں تو ایسا انسان جہاں کہیں بھی پڑا ہے وہی اس کی قبر ہے اور وہیں اس سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔ دراصل یہ لوگ برزخی معاملات کو حسی طور پر معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ جب اس سے قاصر رہتے ہیں تو سرے سے برزخی حقائق کا انکار کر دیا جاتا ہے۔ (4) واضح رہے کہ فرشتے قبر میں "هٰذا الرجل" کے الفاظ سے سوال کریں گے۔ بظاہر یہ الفاظ رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و توقیر کے خلاف ہیں۔ یہ انداز اس لیے اختیار کیا جائے گا کہ امتحان کے موقع پر قائل کے تعظیمی الفاظ سے صاحب قبر کو جواب کا اشارہ نہ مل جائے۔ بہرحال صحیح جواب دینے کا مدار قوت ایمان پر ہو گا جو صرف مومن کو حاصل ہو گی۔ والله أعلم۔