تشریح:
(1) مسند احمد میں ایک روایت تفصیل سے بیان ہوئی ہے کہ ایک یہودی عورت حضرت عائشہ ؓ کی خدمت کیا کرتی تھی۔ حضرت عائشہ ؓ جب بھی اس سے کوئی حسن سلوک کا معاملہ کرتیں تو وہ آپ کو دعا دیتی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہودی غلط کہتے ہیں، قیامت سے پہلے کوئی عذاب نہیں ہو گا۔ اس کے بعد آپ چند دن ٹھہرے رہے، آخر ایک دن دوپہر کے وقت آپ نے بآواز بلند فرمایا: ’’لوگو! عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگا کرو کیونکہ عذاب قبر برحق ہے۔‘‘ (مسندأحمد:81/6) (2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ عمر کے آخری حصے میں رسول اللہ ﷺ کو عذاب قبر کے متعلق بذریعہ وحی مطلع کیا گیا۔ اس سے پہلے آپ عذاب قبر صرف کفار و یہود کے ساتھ خاص خیال کرتے تھے۔ اس کے بعد آپ کو مطلع کیا گیا کہ عذاب قبر اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے وہ جسے چاہے اس میں مبتلا کر دے، چنانچہ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے ہر نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگتے تھے۔ (فتح الباري:301/3) والله أعلم۔ (3) عذاب قبر روح کو ہو گا یا روح اور جسم دونوں کو؟ ہمارے نزدیک عذاب روح کو ہوتا ہے لیکن روح کا آلہ کار بننے والا جسم بھی اس سے متاثر ہوتا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ عذاب قبر مثالی جسم کو ہو گا۔ عالم مثال، عالم ارواح سے زیادہ کثیف اور عالم اجساد سے زیادہ لطیف ہے۔ ہمیں مثالی جسم کے فلسفے سے اتفاق نہیں ہے، الغرض عذاب کا کچھ حصہ قبر سے شروع ہو جاتا ہے جو جہنم میں داخل ہونے سے مکمل ہو جائے گا۔ والله أعلم۔