باب: ایک بچہ اسلام لایا پھر اس کا انتقال ہو گیا، تو کیا اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی؟ اور کیا بچے کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی جا سکتی ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: If a boy becomes a Muslim and then dies, should a funeral prayer be offered for him? Should Islam be explained to a boy?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حسن ‘ شریح ‘ ابراہیم اور قتادہ رحمہم اللہ نے کہا کہ والدین میں سے جب کوئی اسلام لائے تو ان کا بچہ بھی مسلمان سمجھا جائے گا۔ ابن عباسؓ بھی اپنی والدہ کے ساتھ (مسلمان سمجھے گئے تھے اور مکہ کے) کمزور مسلمانوں میں سے تھے۔ آپ اپنے والد کے ساتھ نہیں تھے جو ابھی تک اپنی قوم کے دین پر قائم تھے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہو سکتا۔حسن ‘ شریح ‘ ابراہیم اور قتادہ نے کہا کہ والدین میں سے جب کوئی اسلام لائے تو ان کا بچہ بھی مسلمان سمجھا جائے گا۔ ابن عباس ؓ بھی اپنی والدہ کے ساتھ (مسلمان سمجھے گئے تھے اور مکہ کے) کمزور مسلمانوں میں سے تھے۔ آپ اپنے والد کے ساتھ نہیں تھے جو ابھی تک اپنی قوم کے دین پر قائم تھے۔ نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہو سکتا۔
1372.
حضرت ابو ہریرۃ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ہر بچہ فطرت اسلام ہی پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنالیتے ہیں، جس طرح کوئی جانور بچہ جنم دیتا ہے، کیا تم اس میں کوئی کان کٹا ہوا پاتے ہو؟‘‘ پھر حضرت ابوہریرہ ؓ یہ آیت کریمہ پڑھنے:’’یہ اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کے پیدا کرنے میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ یہی اللہ کا سیدھا دین ہے۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی حدیث کو انقطاع کے ساتھ بیان کیا ہے، کیونکہ اس سے صرف حضرت ابن شہاب زہری کا ’’استنباط‘‘ بیان کرنا مقصود ہے، اصل اعتماد حضرت ابو ہریرہ ؓ کی مرفوع متصل حدیث پر ہے جسے انہوں نے اس کے بعد بیان کیا ہے۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ ولد الزنا کی نماز جنازہ صحیح ہے۔ قتادہ کے علاوہ تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ ولد الزنا بچے کا جنازہ جائز ہے، کیونکہ وہ فطرت اسلام پر پیدا ہوا ہے۔ اسی طرح نومولود کی نماز جنازہ بھی پڑھی جائے، اگرچہ ناتمام ہی کیوں نہ ہو بشرطیکہ اس نے پیدائش کے وقت چیخ ماری ہو۔ (فتح الباري:282/3) (2) ہمارے نزدیک ناتمام بچے کے متعلق نماز جنازہ کی شرائط محل نظر ہیں کہ اگر وہ پیدائش کے وقت چیخ مارے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے بصورت دیگر نہ پڑھی جائے، کیونکہ جس روایات پر اس موقف کی بنیاد ہے وہ صحیح نہیں، جیسا کہ علامہ البانی ؒ نے اس کے متعلق تفصیل بیان کی ہے۔ (أحکام الجنائز، ص:105،104) حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ناتمام بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔‘‘(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث:3180) واضح رہے کہ ناتمام سے مراد وہ بچہ ہے جس کے چار ماہ مکمل ہو چکے ہوں اور اس میں روح پھونک دی گئی ہو، پھر وفات پا جائے۔ اگر اس مدت سے پہلے ساقط ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی، کیونکہ وہ اس صورت میں میت کہلا ہی نہیں سکتا۔ حدیث میں ہے کہ بچہ جب اپنی ماں کے پیٹ میں چار ماہ کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ (صحیح البخاري، بدءالخلق، حدیث:3208) اس لیے ناتمام بچے پر نماز جنازہ کے لیے اس کے چیخ مار کر رونے کی شرط لگانا صحیح نہیں۔ والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1321
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1359
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1359
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1359
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
اس عنوان کے دو جز ہیں: (1) کیا بچے کا اسلام لانا صحیح ہے اور اس کا اعتبار ہو گا یا نہیں؟ اگر صحیح ہے تو اس کا جنازہ پڑھنا بھی صحیح ہے۔ اگر اس کے اسلام کا اعتبار نہیں تو اس کی نماز جنازہ بھی صحیح نہیں ہو گی۔ ٭ کیا اسے دعوت اسلام دینا صحیح ہے؟ اس مقام پر دوسرا جز خبر و استفہام کے انداز سے ہے جبکہ کتاب الجہاد میں ایک عنوان بایں الفاظ ہے کہ بچے پر اسلام کیسے پیش کیا جائے؟ (صحیح البخاری،الجھادوالسیر،باب:178) گویا اسے دعوت اسلام دی جا سکتی ہے لیکن طریقہ کار کے متعلق وضاحت کی گئی ہے۔ (فتح الباری:3/279) ہمارے نزدیک بچے کا اسلام معتبر ہے جیسا کہ حضرت علی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم بچپن ہی میں مسلمان ہو گئے تھے۔ لیکن بچے کے ارتداد کا اعتبار نہیں ہو گا۔ اس کے اسلام کے متعلق اعتبار یا عدم اعتبار اس صورت میں ہے جب اس کے والدین کافر ہوں۔ اگر وہ دونوں مسلمان ہیں تو اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ واضح رہے کہ غزوہ خندق سے پہلے احکام اسلام اچھے اور برے کی تمیز پر لاگو ہوتے تھے، اس کے بعد احکام اسلام کا دارومدار اس کے بلوغ کو قرار دیا گیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ بچے کا اسلام صحیح ہے اور اس کا اعتبار کیا جائے گا جیسا کہ پیش کردہ آثار و احادیث سے معلوم ہوتا ہے، البتہ امام شافعی کا مسلک اس کے خلاف ہے۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے اثر کو امام بیہقی نے، ابراہیم نخعی کے اثر کو امام عبدالرزاق نے، قاضی شریح کے اثر کو بھی امام بیہقی نے اور قتادہ کے اثر کو امام عبدالرزاق نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباری:3/279) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے متعلق معلق روایت کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے کہ میں اور میری والدہ حضرت لبابہ بنت حارث ہلالیہ مُستضعفين سے تھے۔ (صحیح البخاری،الجنائز،حدیث:1357) بعض کا خیال ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ ہجرت سے پہلے مسلمان ہو چکے تھے لیکن مسلمانوں کی خیرخواہی کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مکہ ہی میں رہنے کا حکم دیا تھا۔ یہ بات صحیح نہیں کیونکہ غزوہ بدر میں انہیں قیدی بنایا گیا تھا اور انہوں نے اپنا فدیہ بھی ادا کیا تھا۔ اسلام غالب رہتا ہے، مغلوب نہیں ہوتا، ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہو۔ دونوں قسم کی روایات کتب حدیث میں مروی ہیں۔ اسلام کے متعلق یہ دعویٰ کہ وہ بلند ہو کر ہی رہے گا کبھی نیچا نہیں ہو گا، تشریع کے اعتبار سے ایسا ہی ہے کہ شریعت اسلام تمام دیگر شرائع پر فوقیت رکھتی ہے، البتہ امر واقع اور تکوینی لحاظ سے اس میں تفصیل ہے کہ بعض اوقات مغلوب ہو جاتا ہے لیکن انجام کار کے اعتبار سے پھر اسے سربلندی ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر تم ایمان و اسلام کے تمام تقاضوں کو پورا کرو گے تو تم ہی سربلند ہو گے۔ (آل عمران:139:3) اب امام بخاری رحمہ اللہ اپنے مسلک کو ثابت کرنے کے لیے وہ احادیث پیش کرتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ نابالغ کا اسلام قبول ہے اور اسے دعوت اسلام بھی پیش کی جا سکتی ہے۔
حسن ‘ شریح ‘ ابراہیم اور قتادہ رحمہم اللہ نے کہا کہ والدین میں سے جب کوئی اسلام لائے تو ان کا بچہ بھی مسلمان سمجھا جائے گا۔ ابن عباسؓ بھی اپنی والدہ کے ساتھ (مسلمان سمجھے گئے تھے اور مکہ کے) کمزور مسلمانوں میں سے تھے۔ آپ اپنے والد کے ساتھ نہیں تھے جو ابھی تک اپنی قوم کے دین پر قائم تھے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہو سکتا۔حسن ‘ شریح ‘ ابراہیم اور قتادہ نے کہا کہ والدین میں سے جب کوئی اسلام لائے تو ان کا بچہ بھی مسلمان سمجھا جائے گا۔ ابن عباس ؓ بھی اپنی والدہ کے ساتھ (مسلمان سمجھے گئے تھے اور مکہ کے) کمزور مسلمانوں میں سے تھے۔ آپ اپنے والد کے ساتھ نہیں تھے جو ابھی تک اپنی قوم کے دین پر قائم تھے۔ نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہو سکتا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرۃ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ہر بچہ فطرت اسلام ہی پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنالیتے ہیں، جس طرح کوئی جانور بچہ جنم دیتا ہے، کیا تم اس میں کوئی کان کٹا ہوا پاتے ہو؟‘‘ پھر حضرت ابوہریرہ ؓ یہ آیت کریمہ پڑھنے:’’یہ اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کے پیدا کرنے میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ یہی اللہ کا سیدھا دین ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی حدیث کو انقطاع کے ساتھ بیان کیا ہے، کیونکہ اس سے صرف حضرت ابن شہاب زہری کا ’’استنباط‘‘ بیان کرنا مقصود ہے، اصل اعتماد حضرت ابو ہریرہ ؓ کی مرفوع متصل حدیث پر ہے جسے انہوں نے اس کے بعد بیان کیا ہے۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ ولد الزنا کی نماز جنازہ صحیح ہے۔ قتادہ کے علاوہ تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ ولد الزنا بچے کا جنازہ جائز ہے، کیونکہ وہ فطرت اسلام پر پیدا ہوا ہے۔ اسی طرح نومولود کی نماز جنازہ بھی پڑھی جائے، اگرچہ ناتمام ہی کیوں نہ ہو بشرطیکہ اس نے پیدائش کے وقت چیخ ماری ہو۔ (فتح الباري:282/3) (2) ہمارے نزدیک ناتمام بچے کے متعلق نماز جنازہ کی شرائط محل نظر ہیں کہ اگر وہ پیدائش کے وقت چیخ مارے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے بصورت دیگر نہ پڑھی جائے، کیونکہ جس روایات پر اس موقف کی بنیاد ہے وہ صحیح نہیں، جیسا کہ علامہ البانی ؒ نے اس کے متعلق تفصیل بیان کی ہے۔ (أحکام الجنائز، ص:105،104) حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ناتمام بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔‘‘(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث:3180) واضح رہے کہ ناتمام سے مراد وہ بچہ ہے جس کے چار ماہ مکمل ہو چکے ہوں اور اس میں روح پھونک دی گئی ہو، پھر وفات پا جائے۔ اگر اس مدت سے پہلے ساقط ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی، کیونکہ وہ اس صورت میں میت کہلا ہی نہیں سکتا۔ حدیث میں ہے کہ بچہ جب اپنی ماں کے پیٹ میں چار ماہ کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ (صحیح البخاري، بدءالخلق، حدیث:3208) اس لیے ناتمام بچے پر نماز جنازہ کے لیے اس کے چیخ مار کر رونے کی شرط لگانا صحیح نہیں۔ والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حسن بصری، قاضی شریح، ابراہیم نخعی اور حضرت قتادہ نے کہا: جب والدین میں سے کوئی ایک مسلمان ہو جائے تو بچہ مسلمان کے ساتھ ہوگا۔ حضرت ابن عباس ؓ اپنی والدہ کےہمراہ مُسْتَضْعَفِينَ ناتوانوں میں سے تھے اور اپنے والد کےہمراہ اپنی قوم کے دین پر نہیں تھے، نیز فرمایا کہ اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہوتا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ ہم کو یونس نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے‘ انہیںابوسلمہ بن عبدالرحمن نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک جانور ایک صحیح سالم جانور جنتا ہے۔ کیا تم اس کاکوئی عضو ( پیدائشی طورپر ) کٹا ہوا دیکھتے ہو؟ پھر ابوہریرہ ؓ نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی فطرت ہے جس پر لوگوں کو اس نے پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خلقت میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں‘ یہی دین قیم ہے۔
حدیث حاشیہ:
باب کامطلب اس حدیث سے یوں نکلتاہے کہ جب ہر ایک آدمی کی فطرت اسلام پر ہوئی ہے تو بچے پر بھی اسلام پیش کرنا اور اس کا اسلام لانا صحیح ہوگا۔ ابن شہاب نے اس حدیث سے یہ نکالا کہ ہر بچے پر نماز جنازہ پڑھی جائے، کیونکہ وہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوا ہے۔ اس یہودی بچے نے اپنے باپ کی طرف دیکھا، گویا اس سے اجازت چاہی جب اس نے اجازت دی تو وہ شوق سے مسلمان ہوگیا۔ باب اور حدیث میں مطابقت یہ کہ آپ ﷺ نے بچے سے مسلمان ہونے کے لیے فرمایا۔ اس حدیث سے اخلاق محمدی پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ آپ ازراہ ہمدردی مسلمان اور غیر مسلمان سب کے ساتھ محبت کا برتاؤ فرماتے اور جب بھی کوئی بیمار ہوتا اس کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لے جاتے۔ ( صلی اللہ علیه وسلم )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Every child is born with a true faith of Islam (i.e. to worship none but Allah Alone) but his parents convert him to Judaism, Christianity or Magainism, as an animal delivers a perfect baby animal. Do you find it mutilated?" Then Abu Hurairah (RA) recited the holy verses: "The pure Allah's Islamic nature (true faith of Islam) (i.e. worshipping none but Allah) with which He has created human beings. No change let there be in the religion of Allah (i.e. joining none in worship with Allah). That is the straight religion (Islam) but most of men know, not." (30.30) ________