تشریح:
(1) حضرت امام بخاری ؓ اس طویل حدیث سے حضرت عمر ؓ کی آخری آرام گاہ اور ان کے نزدیک اس کی اہمیت ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ اس حدیث میں آپ کے فن ہونے کا ذکر نہیں، تاہم امام بخاری ؒ نے ایک دوسرے مقام پر اسے بیان کیا ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر کی وفات ہو گئی تو ہم ان کا جنازہ لے کر مسجد نبوی کی طرف چلے۔ وہاں پہنچ کر میں نے حضرت عمر ؓ کا سلام پہنچایا اور حضرت عائشہ ؓ سے عرض کیا کہ عمر بن خطاب ؓ اجازت طلب کرتے ہیں۔ ان کے اجازت دینے کے بعد انہیں رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ کے ساتھ دفن کیا گیا۔ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث:3700) (2) چونکہ آپ کی شہادت اچانک ہوئی تھی، اس لیے آپ کے نزدیک تین کام بہت اہم تھے: ٭ خلافت کا معاملہ۔ ٭ قرضوں کی ادائیگی۔ ٭ جوار رسول ﷺ میں دفن ہونے کی خواہش۔ ان میں مؤخر الذکر بہت زیادہ اہمیت کا حامل تھا، چنانچہ آپ نے فرمایا کہ میرے نزدیک اس خواب گاہ کے حصول سے زیادہ اور کوئی چیز اہم نہ تھی۔ سب سے زیادہ فکر، تمنا اور خواہش یہی تھی کہ وہ مبارک اور مقدس جگہ مجھے حاصل ہو جائے۔ اس کے حصول کے لیے آپ نے حضرت عائشہ ؓ کے حضور بڑی عاجزانہ درخواست پیش کی۔ اپنے لخت جگر سے کہا کہ امیر المومنین کہنے کے بجائے میرا نام لینا۔ الغرض پوری طرح حضرت عائشہ ؓ کو اطمینان دلایا تاکہ وہ اس کے متعلق کوئی گرانی یا دباؤ محسوس نہ کریں۔ (فتح الباري:85/7) سبحان اللہ! کیا مقام ہے؟ ہر سال لاکھوں مسلمان مدینہ طیبہ پہنچ کر رسول اللہ ﷺ پر درودوسلام پڑھتے ہیں، ساتھ ہی آپ کے جانثاروں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق ؓ پر بھی انہیں سلام بھیجنے کا موقع مل جاتا ہے۔