قسم الحديث (القائل): موقوف ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الجَنَائِزِ (بَابُ مَا جَاءَ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ ؓ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {فَأَقْبَرَهُ} [عبس: 21]: أَقْبَرْتُ الرَّجُلَ أُقْبِرُهُ إِذَا جَعَلْتَ لَهُ قَبْرًا، وَقَبَرْتُهُ: دَفَنْتُهُ {كِفَاتًا} [المرسلات: 25]: يَكُونُونَ فِيهَا أَحْيَاءً، وَيُدْفَنُونَ فِيهَا أَمْوَاتًا

1392. حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ الْأَوْدِيِّ قَالَ رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ اذْهَبْ إِلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقُلْ يَقْرَأُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَيْكِ السَّلَامَ ثُمَّ سَلْهَا أَنْ أُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَيَّ قَالَتْ كُنْتُ أُرِيدُهُ لِنَفْسِي فَلَأُوثِرَنَّهُ الْيَوْمَ عَلَى نَفْسِي فَلَمَّا أَقْبَلَ قَالَ لَهُ مَا لَدَيْكَ قَالَ أَذِنَتْ لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ مَا كَانَ شَيْءٌ أَهَمَّ إِلَيَّ مِنْ ذَلِكَ الْمَضْجَعِ فَإِذَا قُبِضْتُ فَاحْمِلُونِي ثُمَّ سَلِّمُوا ثُمَّ قُلْ يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَإِنْ أَذِنَتْ لِي فَادْفِنُونِي وَإِلَّا فَرُدُّونِي إِلَى مَقَابِرِ الْمُسْلِمِينَ إِنِّي لَا أَعْلَمُ أَحَدًا أَحَقَّ بِهَذَا الْأَمْرِ مِنْ هَؤُلَاءِ النَّفَرِ الَّذِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ فَمَنْ اسْتَخْلَفُوا بَعْدِي فَهُوَ الْخَلِيفَةُ فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا فَسَمَّى عُثْمَانَ وَعَلِيًّا وَطَلْحَةَ وَالزُّبَيْرَ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ وَسَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ وَوَلَجَ عَلَيْهِ شَابٌّ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ أَبْشِرْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ بِبُشْرَى اللَّهِ كَانَ لَكَ مِنْ الْقَدَمِ فِي الْإِسْلَامِ مَا قَدْ عَلِمْتَ ثُمَّ اسْتُخْلِفْتَ فَعَدَلْتَ ثُمَّ الشَّهَادَةُ بَعْدَ هَذَا كُلِّهِ فَقَالَ لَيْتَنِي يَا ابْنَ أَخِي وَذَلِكَ كَفَافًا لَا عَلَيَّ وَلَا لِي أُوصِي الْخَلِيفَةَ مِنْ بَعْدِي بِالْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ خَيْرًا أَنْ يَعْرِفَ لَهُمْ حَقَّهُمْ وَأَنْ يَحْفَظَ لَهُمْ حُرْمَتَهُمْ وَأُوصِيهِ بِالْأَنْصَارِ خَيْرًا الَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ أَنْ يُقْبَلَ مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَيُعْفَى عَنْ مُسِيئِهِمْ وَأُوصِيهِ بِذِمَّةِ اللَّهِ وَذِمَّةِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُوفَى لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ وَأَنْ يُقَاتَلَ مِنْ وَرَائِهِمْ وَأَنْ لَا يُكَلَّفُوا فَوْقَ طَاقَتِهِمْ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ اور سورۃ عبس میں جو آیا ہے «فأقبره‏» تو عرب لوگ کہتے ہیں «أقبرت الرجل» «اقبره‏» یعنی میں نے اس کے لیے قبر بنائی اور «قبرته» کے معنی میں نے اسے دفن کیا اور سورۃ المرسلات میں جو «كفاتا‏» کا لفظ ہے زندگی بھی زمین ہی پر گزارو گے اور مرنے کے بعد بھی اسی میں دفن ہوں گے۔

1392.

حضرت عمرو بن میمون اودی ؓ فرماتے ہیں: میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ  کو دیکھا، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ  سے فرمایا: اے عبداللہ! تم ام المومنین حضرت عائشہ ؓ  کے پاس جاؤ، ان سے کہو کہ عمر بن خطاب آپ کو سلام کہتے ہیں اور ان سے دریافت کرو کہ میں اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونا چاہتا ہوں۔ ام المومنین ؓ  نے جواب دیا: میں اپنی ذات کے لیے اس جگہ کا ارادہ رکھتی تھی، لیکن آج میں ان کواپنی ذات پر ترجیح دیتی ہوں۔ جب حضرت عبداللہ بن عمر ؓ  واپس آئے توانھوں نے پوچھا: کیا جواب لائے ہو؟ انھوں نے عرض کیا: امیرالمومنین ؓ ! ام المومنین ؓ نےآپ کو اجازت دے دی ہے، حضرت عمر فاروق ؓ  نے فرمایا: مجھے سب سے زیادہ فکر اسی خواب گاہ کی تھی۔ جب میں فوت ہوجاؤں تو مجھے اٹھا کر وہاں لے جانا، سلام کرنا پھر کہنا کہ عمر بن خطاب اجازت مانگتے ہیں۔ اگر وہ اجازت دے دیں تو مجھے وہاں فن کردینا، بصورت دیگر مجھے مسلمانوں کے قبرستان میں واپس لے جانا۔ میں خلافت کا مستحق ان لوگوں سے زیادہ کسی کو خیال نہیں کرتا جن سے رسول اللہ ﷺ خوش ہوکر فوت ہوئے ہیں۔ یہ لوگ میرے بعد جسے بھی خلیفہ بنا لیں وہی خلیفہ ہیں۔ اس کی بات سننا اوراطاعت کرنا، پھر آپ نے حضرت عثمانؓ، حضرت علی ؓ  حضرت طلحہ ؓ  حضرت زبیر ؓ  حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ، اورحضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ، کے نام ذکر کیے۔ دریں اثنا انصار کا ایک نوجوان آپ کے پاس آیا اور کہنےلگا: امیرالمومنین ؓ! آپ کو اللہ تعالیٰ کی بشارت سے خوش ہونا چاہیے، کیونکہ آپ کو اسلام میں قدامت کا شرف حاصل ہے جو آپ بھی اچھی طرح جانتے ہیں،علاوہ ازیں آپ خلیفہ منتخب ہوئےاور عدل وانصاف سے کام لیا، پھر ان سب کے بعد آپ نے شہادت پائی۔ حضرت عمر فاروق ؓ  نےفرمایا: اےمیرے بھتیجے! کاش کے میں ان کی وجہ سے برابر برابر چھوٹ جاؤں۔ نہ مجھے کوئی عذاب ہو اور نہ کوئی ثواب ملے۔ میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو مہاجرین اولین سے اچھے سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔ وہ ان کے حقوق کو پہچانے اور ان کی عزت وحرمت کی نگہداشت کرے۔ اور انصار کے متعلق بھی خیر خواہی کی وصیت کرتا ہوں جنھوں نے مدینہ کو اپنا گھر بنایا اور(مہاجرین کے مدینہ آنے سے پہلے) ایمان لے آئے کہ ان میں سے محسن کا احسان قبول کیا جائے اور ان میں سے جو بُرا کام کرنے والے ہوں ان سے درگزر کیا جائے۔ میں ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتاہوں کہ وہ اس ذمہ داری کو پورا کرے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ذمہ داری ہے، یعنی ان کے عہد وپیمان کو پورا کیا جائے اور ان کے آگے دشمن سے لڑا جائے اور طاقت سے زیادہ ان پر کوئی بوجھ نہ ڈالا جائے۔