تشریح:
1۔ عنوان بندی کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی یہ عادت ہے کہ وہ ان کے ذریعے سے بظاہر دومتعارض احادیث کے درمیان تطبیق کی صورت بیان کرتے ہیں۔ یہی صورت حال اس جگہ ہے۔ مذکورہ روایت تحریم پر دلالت کرتی ہے کہ کسی صورت میں کعبے کی طرف قضائے حاجت کے وقت نہ منہ کرنا جائز ہے اور نہ اس کی طرف پشت ہی کرنا جائز ہے۔ اور اگلی روایت، جو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، اس میں تفریق ہے کہ اگر صحرا میں قضائے حاجت کی ضرورت ہو تو کعبے کی طرف منہ اور پشت کرنا منع ہے لیکن عمارات یا چاردیواری کے اندر جائز ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں تعارض بایں طور ختم کیا ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کو فضا کے ساتھ خاص کردیا ہے۔ کہ جنگلات یا میدان میں کعبے کی طرف منہ اور پشت کرنا دونوں ہی منع ہیں، البتہ اگر دیوار کی آڑ ہو یا بیت الخلاء کسی عمارت میں ہو تو کوئی حرج نہیں۔
2۔ قبلے کی طرف منہ یا پشت کرکے قضائے حاجت کرنا جائز ہے یا ناجائز؟ یہ مسئلہ سلف صالحین سے مختلف فیہ چلا آرہا ہے اور اس کی وجہ جواز اور عدم جواز کے دلائل کا بظاہر متعارض ہونا ہے۔ جہاں تک کھلی فضا میں قضائے حاجت کا تعلق ہے تو اس صورت میں بالاتفاق منہ اور پشت کرنا دونوں ممنوع ہیں، تاہم اگر قضائے حاجت کرنے والا کسی عمارت وغیرہ میں ہو تو اس صورت میں اختلاف ہے۔ علماء کی اس بارے میں درج ذیل چار رائے ہیں: (الف)۔ منہ اور پشت دونوں ممنوع ہیں، خواہ صحرا ہو یا عمارت۔ ان کی دلیل ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی درج بالا روایت ہے اور وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت پر محمول کرتے ہیں۔ (ب)۔ کھلی فضا اور عمارات میں قبلے کی طرف منہ اور پشت کرنا دونوں امر جائز ہیں۔ ان حضرات کے نزدیک ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث ناسخ اور ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث منسوخ ہے۔ اور بعض نے اس کے برعکس بھی کہا ہے۔ (ج)۔ قبلہ رخ منہ کرنا صحرا اورعمارت دونوں میں منع ہے البتہ عمارت میں پشت کی جا سکتی ہے اس موقف کی دلیل بھی حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما ہے۔ ان حضرات کےنزدیک کیونکہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما میں کعبے کی طرف صرف پشت کرنے کا ذکر ہے۔ اس لیے پشت کرنا عمارت میں جائز ہے۔(د)۔ کھلی فضا میں قبلے کی طرف منہ اور پشت کرنا، دونوں ممنوع ہیں اور عمارات وغیرہ میں دونوں کا جواز ہے۔ البتہ بچنا افضل ہے۔ ان کی دلیل ابن عمر رضی اللہ عنہما کی آئندہ حدیث اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سنن ابی داؤد وغیرہ(حدیث:13) کی احادیث ہیں جن میں عمارات میں استقبال اور استدبار دونوں کا جواز ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ باب سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہی چوتھا موقف راجح ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ دیگرمحدثین کے قائم کردہ ابواب سے ان کا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ اس موقف کی وجہ ترجیح یہ ہے کہ پہلا موقف اس لیے درست نہیں کہ کسی بھی فعل میں اصل عدم تخصیص ہے، خصوصیت قراردینے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے جویہاں نہیں ہے۔ پھر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سےعموم ہی سمجھا ہے، اسے آپ کی خصوصیت قرار نہیں دیا۔ دوسرا موقف اس لیے مرجوح ہے کہ بظاہر تاہم متعارض احادیث میں سب سے پہلے تطبیق دی جاتی ہے نہ کہ ناسخ ومنسوخ دیکھا جاتا ہے۔ جب تطبیق ممکن ہوتو پھر ناسخ ومنسوخ نہیں دیکھا جاتا اور یہاں تطبیق ممکن ہے۔ تیسرا موقف، جس میں منہ اور پشت کا فرق ملحوظ رکھا گیا ہے، بھی مرجوح ہے کیونکہ استقبال اور استدبار ایک ہی چیز ہے، پھر حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات سے ایک سال پہلے دیکھا کہ آپ قبلہ رخ ہوکر قضائے حاجت کر رہے تھے۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 13) اس لیے استقبال اور استدبار کا فرق بھی درست نہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں وارد ممانعت کو نہی تنزیہی پر محمول کیا جائے گا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی احادیث میں مذکور آپ کا فعل بیان جواز کے لیے ہو گا کہ بہتر اور افضل یہی ہے کہ میدانی علاقہ ہو یا عمارت ہر دو صورتوں میں قبلہ رخ ہو کر قضائے حاجت سے اجتناب کیا جائے، تاہم اگر عمارت میں کوئی ایسا کرلے تو وہ گناہگار نہ ہو گا۔ اس کی تائید حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من لم يستقبل القبلة ولم يستدبرها في الغائط كُتِب له حسنة ومُحي عنه سيئة» ’’جو شخص قضائے حاجت کرتے وقت قبلے کی طرف منہ اور پیٹھ نہ کرے اس کے لیے (ہربار) ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔اور اس کی ایک بُرائی مٹا دی جاتی ہے۔‘‘ (المعجم الأوسط للطبراني: 362/1، حدیث: 1321، و الصحیحة للألباني: 88/3)
3۔ قضائے حاجت کے وقت مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرنے کا خطاب اہل مدینہ سے ہے کیونکہ مدینہ منورہ کے اعتبار سے قبلہ جنوب کی طرف ہے۔ برصغیر میں رہنے والوں کے لیے قبلہ مغرب کی طرف ہے، لہذا ہمارے لیے جنوب اور شمال کی طرف منہ کرنے کی ہدایت ہے، لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الصلاۃ، باب: 29 میں وضاحت کی ہے کہ مشرق ومغرب میں کوئی قبلہ نہیں ہے، شاید اس سے ان لوگوں کا قبلہ مراد ہے جو مکے سے جنوب یا شمال میں رہتے ہیں۔ (فتح الباري: 324/1)