تشریح:
(1) حدیث میں بیان کردہ مثال سے مراد صدقہ کرنے والے انسان کی بخیل پر فضیلت کو بیان کرنا ہے۔ (2) محدثین کرام نے اس کی مختلف انداز سے تشریح کی ہے۔ ابن بطال نے کہا ہے کہ سخی جب سخاوت کرتا ہے تو صدقہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے اور اس کے تمام گناہ مٹا دیتا ہے، جیسا کہ کرتا پھیل جائے تو پہننے والے کے پورے بدن کو چھپا لیتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے جبکہ بخیل کا نفس خرچ کرنے میں اس کی موافقت نہیں کرتا، لہذا وہ گناہوں کے کفارے سے محروم رہتا ہے۔ بعض علماء نے اس کی وضاحت بایں طور کی ہے کہ سخی جب خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا سینہ کھل جاتا ہے اور اس کے ہاتھ بھی اس کی موافقت کرتے ہیں جبکہ بخیل کا سینہ سخاوت کے وقت تنگ ہو جاتا ہے اور اس کے ہاتھ بھی خرچ کرنے میں اس کا ساتھ نہیں دیتے۔ (3) اس مثال کی وضاحت اس طرح بھی ہے کہ سخی انسان کو اللہ تعالیٰ پردے میں رکھتا ہے، جیسا کہ کرتا انسان کو چھپا لیتا ہے، اس طرح اللہ تعالیٰ سخی پر دنیا و آخرت میں پردہ ڈالتا ہے جبکہ بخیل کا کرتا اس کے گلے میں پھنسا رہتا ہے جس کی وجہ سے اس کا جسم ننگا رہتا ہے جو اس کی ذلت اور رسوائی کا باعث بنتا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ بخیل کو دونوں جہانوں میں ذلیل و خوار کرتا ہے۔ (4) حسن بن مسلم کی متابعت کو امام بخاری ؒ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:5797) جبکہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کی دوسری روایت کو صحیح ابن حبان میں بیان کیا گیا ہے۔ (فتح الباري:387/3)