تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے باب میں ثابت کیا تھا کہ بوقت ضرورت عورتوں کا گھر سے باہرنکلنا جائز ہے بالخصوص قضائے حاجت کے لیے رات کے وقت میدانی علاقے میں جانے میں چنداں حرج نہیں۔ اس باب میں بیان فرمایا ہے کہ قضائے حاجت کے لیے عورتوں کا باہر جانا ایک ہنگامی ضرورت کے پیش نظر تھا جس کو بدل دیا گیا اور گھروں میں اس کے انتظامات کردیئے گئے۔ (فتح الباري: 329/1) نیز شیاطین کو گندگی سے طبعی مناسبت ہوتی ہے، اس لیے جو مقام انسانی حاجت کے لیے ہوتے ہیں وہاں شیاطین کا ہجوم رہتا ہے تو گویا گھروں میں بیت الخلاء تعمیرکرنا، وہاں شیاطین کے جمع ہونے کا مرکز قائم کرنا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت احادیث لا کر اس کا جواز ثابت کیا ہے کہ مکان میں ایک جانب بیت الخلاء تعمیر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ شیطاطین تو اس گوشے میں جمع رہیں گے،البتہ ان کے بُرے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے اس دعا کی تلقین فرمادی جس کا پہلے ذکر ہوچکا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں ہے کہ قضائے حاجت کے لیے بہت دور جانا پسند کرتے تھے تاکہ آپ کو کوئی دیکھ نہ سکے۔دور جانا بجائے خود کوئی مقصد نہیں بلکہ مقصد پردہ ہے۔ اگر قریب ہی میں پردے کا اہتمام ہوجائے تو دور جانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ گھر میں قضائے حاجت کے لیے بنائے گئے بیت الخلاء سے یہ ضرورت بدرجہ اتم پوری ہوجاتی ہے۔
2۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دو احادیث پیش فرمائی ہیں: پہلی حدیث میں شام کی طرف منہ کرنے کا ذکر ہے اور دوسری روایت میں بیت المقدس کے الفاظ ہیں۔ چونکہ یہ دونوں ایک ہی جہت میں واقع ہیں اس لیے ان میں کوئی تضاد نہیں ہے نیز پہلی روایت میں استقبال شام کے ساتھ استدبار کعبہ کی بھی تصریح ہے۔ (فتح الباري: 325/1)
3۔ مذکورہ دونوں روایات میں واقعہ تو ایک ہی بیان ہوا ہے۔ لیکن حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ا س گھر کو ایک روایت میں اپنی ہمیشرہ حضرت حفصہ (زوجہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم) رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا گھر بتایا ہے اور دوسری روایت میں اسے اپنا گھر کہا ہے۔ اس کی توجیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ گھر تو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تھا، لیکن ان کی وفات کے بعد ورثے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آ گیا تھا، اس لیے دونوں ہی باتیں درست ہیں۔ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ گھروں کے اندر قبلے کی طرف منہ یا پیٹھ کا رخ کرنا جائز ہے۔