تشریح:
(1) غلام اور لونڈی پر صدقہ فطر واجب ہونے سے یہ مراد ہے کہ ان کی طرف سے مالک صدقہ دے گا جیسا کہ ایک روایت میں چھوٹے بچے پر صدقہ فطر واجب ہونے کا ذکر ہے، لیکن اس کی طرف سے اس کا سرپرست ادا کرتا ہے۔ (2) واضح رہے کہ من المسلمين کے اضافے کو امام مالک کے تمام شاگرد بیان کرتے ہیں، البتہ قتیبہ بن سعید اس کا ذکر نہیں کرتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فطرانے کے وجوب کے لیے اسلام شرط ہے، اس کا تقاضا ہے کہ کافر پر اس کا ادا کرنا ضروری نہیں۔ (3) سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک مسلمان آقا اپنے کافر غلام کی طرف سے فطرانہ ادا کرنے کا پابند ہے یا نہیں؟ جمہور کا موقف ہے کہ کافر غلام کی طرف سے فطرانہ ادا نہیں کیا جائے گا، البتہ احناف نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ آقا کو اپنے کافر غلام کا فطرانہ ادا کرنا ہو گا، لیکن یہ موقف محل نظر ہے، البتہ راوی حدیث حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق روایات میں ہے کہ وہ اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے فطرانہ ادا کرتے تھے وہ آزاد ہوں یا غلام، چھوٹے ہوں یا بڑے، مسلمان غلام ہوں یا کافر۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ وہ بطور نفل ایسا کرتے تھے اور اس پر کوئی پابندی نہیں۔ (فتح الباري:467/3) رسول اللہ ﷺ نے ہر شخص کی طرف سے فطرانہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے جس کی کفالت اس کے ذمے ہے، خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا، آزاد ہو یا غلام۔ (سنن الدارقطني:14/2)