تشریح:
(1) دو مد سے مراد نصف صاع ہے کیونکہ ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ کھجور سے بھی ایک صاع فطرانہ ادا کیا جائے، حضرت معاویہ ؓ کے زمانے میں شام کے علاقے سے بکثرت گندم مدینہ آنے لگی تو انہوں نے اس کی قیمت کا اعتبار کرتے ہوئے گندم کے نصف صاع کو جو کے ایک صاع کے مساوی قرار دے دیا جیسا کہ حضرت ابن عمر ؓ خود فرماتے ہیں کہ جب سیدنا معاویہ ؓ کا دور آیا تو لوگوں نے گندم کے نصف صاع کو جو کے ایک صاع کے برابر قرار دے لیا۔ (صحیح ابن خزیمة:81/4) جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ نے اس کی صراحت فرمائی ہے کہ جب امیر معاویہ ؓ کا زمانہ آیا اور گندم باہر سے آنے لگی تو انہوں نے کہا کہ گندم کا ایک مد دوسری اجناس کے مقابلے میں دو مد کے برابر ہے۔ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث:1508) البتہ ابوداود کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں گندم مدینہ آنا شروع ہوئی تو آپ نے اس کے نصف صاع کو دوسری اجناس کے ایک صاع کے برابر قرار دے دیا تھا۔ (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث:1614) حافظ ابن حجر ؒ نے امام مسلم کے حوالے سے بتایا ہے کہ مذکورہ روایت ایک راوی عبدالعزیز بن ابی رواد کے وہم پر مبنی ہے اور امام مسلم ؒ نے (کتاب التمییز، ص: 43-45، حدیث: 92،93) میں اس کی تردید کی ہے۔ (فتح الباري:469/3)