تشریح:
(1) صدقہ فطر کی ادائیگی عید کی نماز سے پہلے پہلے ضروری ہے اگرچہ تقسیم بعد میں کر دیا جائے، نماز عید کے بعد فطرانہ ادا کرنا درست نہیں۔ اس کی حیثیت عام صدقے کی نہیں کہ جس وقت مرضی ہو ادا کر دیا جائے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عید گاہ جانے سے پہلے فطرانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ (صحیح ابن خزیمة:91/4) حضرت ابن عمر ؓ اپنا فطرانہ عید سے دو تین دن پہلے تحصیل دار کے پاس بھیج دیا کرتے تھے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ (الموطأ للإمام مالك مع تنویرالحوالك:210/1) البتہ حاکم وقت جمع شدہ فطرانہ عید کے بعد بھی ضرورت مند حضرات میں تقسیم کر سکتا ہے۔ امام ابن خزیمہ نے اس سلسلے میں ایک عنوان بھی قائم کیا ہے۔ (صحیح ابن خزیمة، باب:401) بطور دلیل وہ حدیث پیش کی ہے جس میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کو فطرانے کی نگہداشت پر تعینات کرنے کا ذکر ہے، نیز اس میں سے شیطان کے چرا لینے، پھر ایک وظیفہ بتانے کا بھی بیان ہے۔ (صحیح ابن خزیمة:91/4) حدیث ابو سعید میں یوم الفطر سے مراد دن کا پہلا حصہ ہے، یعنی نماز صبح سے نماز عید کے درمیان وقت، اس میں صدقہ فطر ادا کر دیا جاتا تھا۔ یہ تاویل اس لیے ضروری ہے کہ دن کا لفظ لغوی اعتبار سے طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک بولا جاتا ہے جبکہ صدقہ فطر کی ادائیگی کے لیے اتنا وسیع وقت نہیں ہے۔ (فتح الباري:473/3)