تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا اس عنوان سے مقصود یہ ہے کہ غلام اگر تجارت کے لیے ہوں تو مسلمان اور کافر کی تمیز کیے بغیر ان کی مالیت پر زکاۃ واجب ہے۔ اور اگر تجارت کے لیے نہیں ہیں تو ان کا فطرانہ ادا کیا جائے لیکن صرف ان غلاموں کا جو مسلمان ہیں۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صدقہ فطر اس جنس سے ادا کیا جائے جو سال کے اکثر حصے میں بطور خوراک استعمال ہوتی ہے، اس سے بہتر جنس بھی بطور فطرانہ دی جا سکتی ہے، البتہ اس سے کمتر کو بطور فطرانہ دینا درست نہیں۔ لیکن حضرت ابن عمر ؓ میں اتباع سنت کا جذبہ موجزن تھا، چنانچہ ابو مجلز ؒ کہتے ہیں: میں نے ایک دفعہ ان سے کہا: اللہ تعالیٰ نے اب فراخی کر دی ہے اور گندم کھجور سے بڑھ کر ہے، لہذا آپ کھجور کے بجائے گندم سے صدقہ فطر ادا کریں تو انہوں نے فرمایا: صدقہ فطر کی ادائیگی میں جو راستہ میرے ساتھیوں نے اختیار کیا تھا میں بھی اس پر چلنا پسند کرتا ہوں۔ (فتح الباري:474/3) (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صدقہ فطر ایک دو دن پہلے بھی دیا جا سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک صدقہ فطر کا مقصد ’’مساکین کی خوراک‘‘ ٹھہرایا گیا ہے جس کی وضاحت حدیث میں ہے۔ (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث:1609) اس بنا پر اشیائے خوردنی ہی فطرانے میں دی جائیں، قیمت وغیرہ ادا کرنا محل نظر ہے۔ واللہ أعلم