تشریح:
(1) صدقہ فطر ادا کرنے میں صاحب نصاب ہونا ضروری نہیں بلکہ ہر شخص پر اس کا ادا کرنا ضروری ہے جس کے پاس عید کے دن اپنے اہل و عیال کی خوراک سے اتنا غلہ زائد موجود ہو کہ وہ گھر کے ہر فرد کی طرف سے فطرانہ ادا کر سکے۔ امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ زکاۃ میں نصاب کی ملکیت کا اعتبار نہیں بلکہ ہر اس انسان پر واجب ہے جو عید کی رات اور دن اپنی خوراک سے ایک صاع زائد غلہ رکھتا ہو، یہی جمہور کا قول ہے۔ (الجامع للاختیارات الفقیھیة :408/1۔412) اس حدیث میں ایک صاع بطور فطرانہ ادا کرنے کا ذکر ہے لیکن حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں گندم سے دو مد، یعنی نصف صاع بطور فطرانہ ادا کرتے تھے۔ (مسندأحمد:350/6) علامہ ابن قیم ؒ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے اور چند احادیث کے حوالے سے اسے مضبوط بھی کہا ہے۔ خوف طوالت کے پیش نظر ہم صرف زاد المعاد کے حوالے پر اکتفا کرتے ہیں۔ (زادالمعادلابن القیم، فصل في ھدیه صلی اللہ علیه وسلم في زکاةالفطر:19/2 ،20) علامہ البانی ؒ لکھتے ہیں: گندم سے نصف صاع فطرانہ ادا کیا جا سکتا ہے۔ شیخ الاسلام کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ (تمام المنة :387) علامہ ابن حزم نے متعدد احادیث و آثار ذکر کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ گندم سے نصف صاع بھی دیا جا سکتا ہے۔ (محلیٰ ابن حزم:129/6) عرب میں دوسری اشیائے خوردنی کے مقابلے میں گندم قیمتی ہوتی تھی اس لیے نصف صاع کا اعتبار کیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ عام دستیاب ہے، اس لیے ہمیں گندم سے ایک صاع ہی ادا کرنا چاہیے، البتہ غریب اور نادار لوگوں کے لیے نصف صاع ادا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر کے دو مقاصد بیان فرمائے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے: دوران رمضان روزے کی حالت میں صرف کھانے پینے ہی پر پابندی نہیں ہوتی بلکہ ہر عضو بالخصوص زبان پر کنٹرول بھی ضروری ہوتا ہے، تاہم احتیاط کے باوجود روزے دار سے کوتاہیاں سرزد ہو جاتی ہیں۔ اس قسم کی غلطیوں کی تلافی کے لیے صدقہ فطر کو کفارہ کی حیثیت دی گئی ہے۔ مسلم معاشرے میں سب لوگ یکساں نہیں ہوتے، کچھ لوگ صاحب حیثیت ہوتے ہیں جبکہ بعض مفلس اور نادار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ثروت کے اموال میں غرباء و مساکین کا بھی حصہ رکھا ہے، اور صدقہ فطر اس حق کو ادا کرنے کی ایک عملی شکل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان مقاصد کی نشاندہی بایں الفاظ فرمائی ہے: ’’صدقہ فطر روزے داروں کے لیے فحش گوئی اور لغویات سے پاکیزگی کا باعث اور غرباء کے لیے خوراک کا ایک ذریعہ ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث:1609)