تشریح:
(1) پچھلے باب میں یہ تھا کہ سواری کو حج کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے،اس سے یہ اشکال پیدا ہوسکتا تھا کہ حج میں تو عجزوانکسار ہونا چاہیے۔امام بخاری ؒ یہ باب لاکر بتانا چاہتے ہیں کہ اگر سواری پر سادہ کجاوہ ہوتو یہ عجزوانکسار کے خلاف نہیں۔ فخرو مباہات سے بچتے ہوئے سادگی اختیار کرنی چاہیے۔ تکلف سے ہر ممکن گریز کرنا چاہیے۔ (2) حضرت عائشہ ؓ نے جب عمرہ کیا تو ان کے بھائی حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکرؓ نے انھیں اپنے پیچھے پالان کی اضافی لکڑی پر ہی بٹھالیا اور عمرے کےلیے روانہ ہوگئے،ان کے لیے کوئی آرام دہ سواری تلاش نہیں کی گئی۔ اگرچہ آج کل ہوئی جہاز کے سفر بہت آرام دہ اور پرسکون ہوتے ہیں، تاہم ان حالات میں بھی سادگی کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔ مکہ مکرمہ سے منی، عرفات اور مزدلفہ جانے کے لیے پیدل یا معمولی سواری کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ (3) حضرت عمر ؓ کے اثر کو مصنف عبدالرزاق میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔ آپ جب جہاد سے واپس ہوتے تو مجاہدین کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے کہ تم اپنے گھوڑے سے ان کی زینیں اتار دو اور اونٹوں پر کجاوے باندھ لو تاکہ حج یا عمرہ کیا جائے، یہ سفر بھی جہاد کا حصہ ہے۔ (المصنف لعبدالرزاق:7/5، طبعة ا لمکتب الإسلامي، بیروت) کیونکہ اس میں بھی تکلیف اور بدنی مشقت ہوتی ہے۔ بہرحال امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ سفر میں سادگی اختیار کی جائے، تکلفات اور زیب وزینت اختیار کرنے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں۔ (فتح الباري:480/3)