تشریح:
اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بچہ پیدائش کے وقت گناہوں سے پاک ہوتا ہے حج کے بعد بھی تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ حقوق العباد معاف نہیں ہوں گے، اسی طرح وہ حقوق اللہ بھی معاف نہیں ہوں گے جو اس نے اپنے ذمے لیے تھے، مثلا: نذر اور کفارہ وغیرہ، لیکن انھیں پورا نہ کرسکا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ﴾ (البقرة:197:2) ’’حج کے مہینے معروف ہیں، جو شخص ان میں حج کا عزم کرے اس کےلیے دوران حج میں نہ جنسی چھیڑ چھاڑ جائز ہے نہ بد کرداری اور نہ لڑائی جھگڑا۔‘‘ لیکن اس حدیث میں جدال کا ذکر نہیں فرمایا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ جدال، یعنی لڑائی جھگڑے کا گناہ ہونا انسان کے اپنے ارادے پر منحصر ہے۔ اگر احکام حج کے متعلق حق کی حمایت اور اس کے اظہار میں مجادلہ کرتا ہے تو اس قسم کا جدال حاجی کے لیے گناہوں کی بخشش میں رکاوٹ نہیں بنے گا اور اگر باطل کی حمایت میں مجادلہ کرتا ہے تو لفظ رفث اسے شامل ہے۔ واللہ أعلم (فتح الباري:482/3)