تشریح:
(1) توکل کی تعریف یہ ہے کہ اسباب وذرائع کو بروئے کارلاکر پھر اللہ پر بھروسہ کیا جائے کیونکہ ان ذرائع کو مؤثر اور ثمر آور بنانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ کر بیٹھ رہنا یہ تاکل ہے توکل نہیں۔ مذکورہ حدیث میں توکل کی مذمت نہیں بلکہ لوگوں کے فعل کی مذمت ہے کیونکہ ان کا فعل توکل نہیں محض تکلف تھا۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے مہلب کے حوالے سے لکھا ہے کہ سوال نہ کرنا تقویٰ سے ہے اور اس کی تائید اس امر سے ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی تعریف کی ہے جو لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتا۔ مذکورہ آیت کے معنی یہ ہیں کہ سفر حج میں توشہ لے کر چلو اور لوگوں سے سوال کرکے انھیں تکلیف نہ پہنچاؤ، نیز سوال کرنے کے گناہ سے پرہیز کرو۔ (فتح الباري:484/3) آج بھی جو لوگ دوران حج میں دست سوال دراز کرتے ہیں انھوں نے حج کے مقصد کو نہیں سمجھا۔ (3) ابن عینیہ کی روایت کو سعید بن منصور نے اپنی سنن میں بیان کیا ہے۔ (4) مرسل اس حدیث کو کہتے ہیں کہ تابعی رسول الله ﷺ سے براہِ راست بیان کرے۔