تشریح:
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل عراق کے لیے ذات عرق کو حضرت عمرؓ نے مقرر فرمایا تھا لیکن حقیقت حال اس کے خلاف ہے کیونکہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل عراق کے لیے ذات عرق کو مقرر فرمایا تھا۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1739) صحیح مسلم کی ایک روایت میں بھی اہل عراق کے لیے ذات عرق کے بطور میقات مقرر ہونے کا ذکر ہے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:2810 (1183)) ممکن ہے کہ جو حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے اس میقات کو مقرر کیا تھا، انہیں حضرت عائشہ ؓ سے مروی مرفوع حدیث نہ پہنچی ہو یا اگر پہنچی ہے تو انہوں نے اسے ضعیف خیال کیا ہو۔ بہرحال راجح بات یہی ہے کہ ذات عرق کو رسول اللہ ﷺ نے خود ہی میقات مقرر فرمایا تھا اگرچہ آپ کے عہد مبارک میں عراق وغیرہ فتح نہیں ہوا تھا لیکن آپ کو اس بات کا یقین تھا کہ دور دراز تک اسلامی حکومت ہو گی، اس لیے آپ نے پیش بندی کے طور پر اسی وقت ذاتِ عرق کو عراق کا میقات مقرر کر دیا۔ (فتح الباري:491/3) جس روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل مشرق کے لیے عقیق کو میقات مقرر فرمایا وہ روایت صحیح نہیں۔ (ضعیف سنن أبي داود، حدیث:381)