Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: What kind of clothes a Muhrim should wear)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عائشہ ؓ محرم تھیں لیکن کسم (کیسو کے پھول) میں رنگے ہوئے کپڑے پہنے ہوئی تھیں۔ آپ نے فرمایا کہ عورتیں احرام کی حالت میں اپنے ہونٹ نہ چھپائیں نہ منہ پر نقاب ڈالیں اور نہ ورس یا زعفران کا رنگا ہوا کپڑا پہنیں اور جابر بن عبداللہ انصاری ؓ نے کہا کہ میں کسم کو خوشبو نہیں سمجھتا اور عائشہ ؓ نے عورتوں کے لیے زیور سیاہ گلابی کپڑے اور موزوں کے پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا اور ابراہیم نخعی نے کہا کہ عورتوں کو احرام کی حالت میں کپڑے بدل لینے میں کوئی حرج نہیں۔
1562.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کنگھی کرنے، تیل لگانے، تہبند پہننے اور چادر اوڑھنے کے بعد مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ اور آپ نے کسی قسم کی چادر اور تہبند پہننے سے منع نہیں فرمایا، البتہ زعفران سے رنگ ہوئے کپڑے جن سے بدن پر زعفران لگے ان سے منع فرمایا۔ الغرض صبح کے وقت آپ ذوالحلیفہ سے اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور جب مقام بیداء پر پہنچے تو آپ نے اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے لبیک کہااور آپ نے اپنی قربانیوں کے گلے میں قلادے ڈال دیے۔ اور یہ پچیس ذوالعقیدہ کاواقعہ ہے۔ پھر آپ چار ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ پہنچے تو کعبہ کا طواف کیا اور صفا مروہ کے درمیان سعی فرمائی۔ چونکہ آپ قربانی کے اونٹ ساتھ لائے تھے اور انھیں قلادہ پہناچکے تھے۔ ا س لیے احرام نہ کھول سکے۔ پھر آپ مکہ کی بلندی پر مقام حجون کےپاس فروکش ہوئے۔ آپ حج کاحرام باندھے ہوئے تھے۔ اس بنا پر طواف قدوم کرنے کے بعد پھر کعبہ کے قریب نہیں گئے یہاں تک کہ عرفات سے واپس آئے۔ اور آپ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ وہ کعبہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کریں، پھر اپنے بال کترواڈالیں اور احرام کھول دیں۔ یہ حکم ان لوگوں کو دیا جن کے پاس قربانی کاجانور نہ تھا جسے پہلے قلادہ پہنایا گیا ہو۔ اور جس کے ساتھ اس کی بیوی تھی تو وہ اس کے لیے حلال ہوگئی۔ اسی طرح خوشبو اور دیگر لباس بھی استعمال کرنا اب جائز ہوگیا۔
تشریح:
امام بخاری ؒ نے اپنا عنوان حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے درج ذیل ارشاد سے ثابت کیا ہے: ’’رسول اللہ ﷺ نے کسی قسم کی چادر اور تہبند سے منع نہیں فرمایا، البتہ زعفران سے رنگے ہوئے کپڑے جن سے بدن پر زعفران لگے ان سے منع فرمایا۔‘‘ یعنی احرام میں ورس اور زعفران سے رنگی چادریں استعمال کرنا ممنوع ہیں۔ اس کے علاوہ انسانی قد وقامت کے مطابق سلے ہوئے کپڑے بھی جائز نہیں ہیں، البتہ عورتوں پر سلے ہوئے کپڑے استعمال کرنے پر پابندی نہیں۔ اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے متعدد مسائل اخذ کیے ہیں، جنہیں آئندہ جستہ جستہ ذکر کیا جائے گا۔ إن شاءاللہ
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1504
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1545
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1545
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1545
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
یہ عنوان پہلے سے مختلف ہے کیونکہ پہلے میں محرم کے لیے ممنوعہ کپڑوں کا بیان تھا جبکہ اس میں ایسے کپڑوں کی تفصیل بیان ہوئی ہے جو محرم کے لیے جائز ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کسم میں رنگے ہوئے کپڑے پہننے والے فعل کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:5/59) اس اثر کی بنا پر جمہور کے نزدیک محرم کے لیے کسم سے رنگے ہوئے کپڑے پہننے کی اجازت ہے۔ اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے اثر کو بھی امام بیہقی نے ذکر کیا ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:5/59) زیورات وغیرہ کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ارشاد گرامی کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے، (السنن الکبرٰی للبیھقی:5/59) نیز حضرت ابراہیم نخعی کے اثر کو مصنف ابن ابی شیبہ میں بیان کیا گیا ہے۔ (فتح الباری:3/511)
اور عائشہ ؓ محرم تھیں لیکن کسم (کیسو کے پھول) میں رنگے ہوئے کپڑے پہنے ہوئی تھیں۔ آپ نے فرمایا کہ عورتیں احرام کی حالت میں اپنے ہونٹ نہ چھپائیں نہ منہ پر نقاب ڈالیں اور نہ ورس یا زعفران کا رنگا ہوا کپڑا پہنیں اور جابر بن عبداللہ انصاری ؓ نے کہا کہ میں کسم کو خوشبو نہیں سمجھتا اور عائشہ ؓ نے عورتوں کے لیے زیور سیاہ گلابی کپڑے اور موزوں کے پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا اور ابراہیم نخعی نے کہا کہ عورتوں کو احرام کی حالت میں کپڑے بدل لینے میں کوئی حرج نہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کنگھی کرنے، تیل لگانے، تہبند پہننے اور چادر اوڑھنے کے بعد مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ اور آپ نے کسی قسم کی چادر اور تہبند پہننے سے منع نہیں فرمایا، البتہ زعفران سے رنگ ہوئے کپڑے جن سے بدن پر زعفران لگے ان سے منع فرمایا۔ الغرض صبح کے وقت آپ ذوالحلیفہ سے اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور جب مقام بیداء پر پہنچے تو آپ نے اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے لبیک کہااور آپ نے اپنی قربانیوں کے گلے میں قلادے ڈال دیے۔ اور یہ پچیس ذوالعقیدہ کاواقعہ ہے۔ پھر آپ چار ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ پہنچے تو کعبہ کا طواف کیا اور صفا مروہ کے درمیان سعی فرمائی۔ چونکہ آپ قربانی کے اونٹ ساتھ لائے تھے اور انھیں قلادہ پہناچکے تھے۔ ا س لیے احرام نہ کھول سکے۔ پھر آپ مکہ کی بلندی پر مقام حجون کےپاس فروکش ہوئے۔ آپ حج کاحرام باندھے ہوئے تھے۔ اس بنا پر طواف قدوم کرنے کے بعد پھر کعبہ کے قریب نہیں گئے یہاں تک کہ عرفات سے واپس آئے۔ اور آپ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ وہ کعبہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کریں، پھر اپنے بال کترواڈالیں اور احرام کھول دیں۔ یہ حکم ان لوگوں کو دیا جن کے پاس قربانی کاجانور نہ تھا جسے پہلے قلادہ پہنایا گیا ہو۔ اور جس کے ساتھ اس کی بیوی تھی تو وہ اس کے لیے حلال ہوگئی۔ اسی طرح خوشبو اور دیگر لباس بھی استعمال کرنا اب جائز ہوگیا۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے اپنا عنوان حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے درج ذیل ارشاد سے ثابت کیا ہے: ’’رسول اللہ ﷺ نے کسی قسم کی چادر اور تہبند سے منع نہیں فرمایا، البتہ زعفران سے رنگے ہوئے کپڑے جن سے بدن پر زعفران لگے ان سے منع فرمایا۔‘‘ یعنی احرام میں ورس اور زعفران سے رنگی چادریں استعمال کرنا ممنوع ہیں۔ اس کے علاوہ انسانی قد وقامت کے مطابق سلے ہوئے کپڑے بھی جائز نہیں ہیں، البتہ عورتوں پر سلے ہوئے کپڑے استعمال کرنے پر پابندی نہیں۔ اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے متعدد مسائل اخذ کیے ہیں، جنہیں آئندہ جستہ جستہ ذکر کیا جائے گا۔ إن شاءاللہ
ترجمۃ الباب:
حضرت عائشہ ؓنے احرام کی حالت میں کسم میں رنگے ہوئے کپڑے پہنے۔ انھوں نےفرمایا کہ عورتیں بحالت احرام اپنا منہ نہ ڈھانپیں اور نہ برقع پہنیں اور نہ ایسا کپڑا ہی زیب تن کریں جو درس اور زعفران سے رنگا ہوا ہو۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ معصفر کو خوشبو خیال نہیں کرتا ہوں۔ حضرت عائشہؓ نے عورت کے لیے بحالت احرام زیورات، سیاہ اور گلابی کپڑے، نیز موزے پہننے میں کوئی حرج خیال نہیں کیا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے کہا کہ محرم آدمی اگر اپنے کپڑے تبدیل کرنا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن ابی بکر مقدمی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے کریب نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ حجتہ الوداع میں ظہراور عصر کے درمیان ہفتہ کے دن نبی کریم ﷺ کنگھا کرنے اور تیل لگانے اور ازار او ررداء پہننے کے بعد اپنے صحابہ کے ساتھ مدینہ سے نکلے۔ آپ نے اس وقت زعفران میں رنگے ہوئے ایسے کپڑے کے سوا جس کا رنگ بدن پر لگتا ہو کسی قسم کی چادر یا تہبند پہننے سے منع نہیں کیا۔ دن میں آپ ﷺ ذوالحلیفہ پہنچ گئے ( اور رات وہیں گزاری ) پھر آپ سوار ہوئے او ربیداء سے آپ کے اور آپ کے ساتھیوں نے لبیک کہا اور احرام باندھا او راپنے اونٹوں کو ہار پہنایا۔ ذی قعدہ کے مہینے میں اب پانچ دن رہ گئے تھے پھر جب آپ مکہ پہنچے تو ذی الحجہ کے چاردن گزر چکے تھے۔ آپ نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا اور مروہ کی سعی کی، آپ ابھی حلال نہیں ہوئے کیونکہ قربانی کے جانور آپ کے ساتھ تھے اور آپ نے ان کی گردن میں ہار ڈال دیا تھا۔ آپ حجون پہاڑ کے نزدیک مکہ کے بالائی حصہ میں اترے۔ حج کا احرام اب بھی باقی تھا۔ بیت اللہ کے طواف کے بعد پھر آپ وہاں اس وقت تک تشریف نہیں لے گئے جب تک میدان عرفات سے واپس نہ ہوليے۔ آپ نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا تھا کہ وہ بیت اللہ کا طواف کریں او رصفا ومروہ کے درمیان سعی کریں، پھر اپنے سروں کے بال ترشوا کر حلال ہوجائیں۔ یہ فرمان ان لوگوں کے لئے تھا جن کے ساتھ قربانی کے جانور نہیں تھے۔ اگر کسی کے ساتھ اس کی بیوی تھی تو وہ اس سے ہم بستر ہوسکتا تھا۔ اسی طرح خوشبو دار اور ( سلے ہوئے ) کپڑے کا استعمال بھی اس کے لئے جائز تھا۔
حدیث حاشیہ:
نبی کریم ﷺ ہفتہ کے دن مدینہ منورہ سے بتاریخ 25 ذی قعدہ کو نکلے تھے۔ اگر مہینہ تیس دن کا ہوتا تو پانچ دن باقی رہے تھے۔ لیکن اتفاق سے مہینہ 29 دن کا ہوگیا اور ذی الحجہ کی پہلی تاریخ پنج شنبہ کو واقع ہوئی۔ کیونکہ دوسری روایتوں سے ثابت ہے کہ آپ عرفات میں جمعہ کے دن ٹھہرے تھے۔ ابن حزم نے جو کہا کہ آپ جمعرات کے دن مدینہ سے نکلے تھے یہ ذہن میں نہیں آتا۔ البتہ ممکن ہے کہ آپ جمعہ کو مدینہ سے نکلے ہوں۔ مگر صحیحین کی روایتوں میں ہے کہ آپ ﷺ نے اس دن ظہر کی نماز مدینہ میں چار رکعتیں پڑھیں اور عصر کی ذوالحلیفہ میں دو رکعتیں۔ ان روایتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ جمعہ کا دن نہ تھا۔ حجون پہاڑ محصب کے قریب مسجد عقبہ کے برابر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah bin Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) with his companions started from Madinah after combing and oiling his hair and putting on two sheets of lhram (upper body cover and waist cover). He did not forbid anyone to wear any kind of sheets except the ones colored with saffron because they may leave the scent on the skin. And so in the early morning, the Prophet (ﷺ) mounted his Mount while in Dhul-Hulaifa and set out till they reached Baida', where he and his companions recited Talbiya, and then they did the ceremony of Taqlid (which means to put the colored garlands around the necks of the Budn (camels for sacrifice). And all that happened on the 25th of Dhul-Qa'da. And when he reached Makkah on the 4th of Dhul-Hijja he performed the Tawaf round the Ka’bah and performed the Tawaf between Safa and Marwa. And as he had a Badana and had garlanded it, he did not finish his Ihram. He proceeded towards the highest places of Makkah near Al-Hujun and he was assuming the Ihram for Hajj and did not go near the Ka’bah after he performed Tawaf (round it) till he returned from 'Arafat. Then he ordered his companions to perform the Tawaf round the Ka’bah and then the Tawaf of Safa and Marwa, and to cut short the hair of their heads and to finish their Ihram. And that was only for those people who had not garlanded Budn. Those who had their wives with them were permitted to contact them (have sexual intercourse), and similarly perfume and (ordinary) clothes were permissible for them. ________