تشریح:
(1) حجراسود کے استلام کے متعلق سنت یہ ہے کہ اسے بوسہ دیا جائے۔ اگر بھیڑ کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو تو اسے ہاتھ لگا کر ہاتھ کو چوم لیا جائے جیسا کہ عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری، ابن عمر اور جابر ؓ کو دیکھا، وہ حجراسود کو چھو کر ہاتھ چومتے تھے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو حجراسود کو چھڑی وغیرہ سے چھو کر اسے چوم لیا جائے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ چھڑی سے حجراسود کا استلام کرتے پھر اسے چوم لیتے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3077(1275)) اگر چھڑی وغیرہ سے استلام نہ ہو سکے تو دور سے اشارہ کر دے۔ اشارہ کرنے کی صورت میں ہاتھ وغیرہ کو چومنے کی ضرورت نہیں۔ (فتح الباري:597/3) (2) یہ روایت جب لیث، اسامہ بن زید اور زمعہ بن صالح نے زہری سے بیان کی تو زہری اور ابن عباس ؓ کے درمیان واسطہ حذف کر دیا۔ امام بخاری ؒ نے مذکورہ روایت کی تقویت کے لیے دراوردی کی متابعت ذکر کی ہے جسے علامہ اسماعیلی نے اپنی مستخرج میں بیان کیا ہے۔ اگرچہ اس متابعت میں حجۃ الوداع اور اونٹ پر سوار ہونے کے الفاظ نہیں ہیں، تاہم اصل روایت کی تائید ہو سکتی ہے۔ (فتح الباري:596/3) رسول اللہ ﷺ نے اونٹ پر سوار ہو کر اس لیے طواف کیا تاکہ لوگ آپ کے طریقہ حج کو بچشم خود دیکھ لیں اور مسائل معلوم نہ ہونے کی صورت میں آپ سے دریافت کر سکیں۔ حجۃ الوداع کے موقع پر اگر آپ سوار نہ ہوتے تو ہجوم کی وجہ سے حج کے بہت سے مسائل مخفی رہنے کا اندیشہ تھا۔ اس مقصد کے پیش نظر طواف کے لیے سواری استعمال کی۔ واللہ أعلم