تشریح:
(1) قریش نے بیت اللہ سے متعلقہ خدمات کو تقسیم کر رکھا تھا: پانی پلانے کا انتظام، کھانا کھلانے کا اہتمام، صفائی اور روشنی وغیرہ کا بندوبست، اسی طرح کلید برداری اور نگرانی وغیرہ۔ یہ خدمات مختلف لوگوں کے سپرد تھیں۔ ان میں سے حجاج کرام کو پانی پلانے کا انتظام عبدالمطلب کے بیٹے حضرت عباس ؓ کے ذمے تھا۔ رسول الله ﷺ نے دور جاہلیت کے اس نظام کو برقرار رکھا اور چاہِ زمزم کا اہتمام حضرت عباس ؓ ہی کے پاس رہنے دیا۔ وہ زمزم کے پانی میں کشمش بھگوتے اور نبیذ بنا کر حجاج کو پلاتے۔ زمزم کا خالص پانی بھی پلایا جاتا۔ (2) حج کے دنوں میں ذوالحجہ کی گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں رات منیٰ میں گزارنی ہوتی ہے، اس لیے حضرت عباس ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ مجھے اور میری اولاد کو منیٰ میں رات گزارنے کی پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا جائے کیونکہ ہم نے حجاج کرام کو پانی پلانے کے انتظامات کرنے ہوتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے انہیں اجازت دی کہ تم یہ راتیں مکہ میں گزار سکتے ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی معقول عذر کی وجہ سے یہ راتیں منیٰ سے باہر گزارنے کی اجازت ہے۔ امام بخاری ؒ کی پیش کردہ دوسری حدیث میں اس نظام سقایہ کی مزید تفصیل ہے۔ طبری کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بیت اللہ کا طواف کر کے زمزم کا پانی نوش کرنے کے لیے چاہ زمزم پر آئے اور حضرت عباس ؓ سے پانی طلب کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ پانی تو گدلا ہے۔ ہم آپ کو اپنے گھر سے پانی لا کر پلاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: مجھے اسی پانی سے پلاؤ۔ جب آپ کو وہ پانی دیا گیا تو اس میں کشمش کے اثرات کچھ زیادہ تھے اور اس میں ترشی پیدا ہو چکی تھی۔ آپ نے اس میں خالص پانی ملا کر اس کی ترشی کو کم کیا اور اسے نوش فرمایا۔ (عمدةالقاري:215/7) (3) بکر بن عبداللہ مزنی کہتے ہیں کہ میں کعبے کے پاس حضرت ابن عباس ؓ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اعرابی آیا اور ان سے کہنے لگا کہ تمہارے چچا زاد بھائیوں نے دودھ اور شہد کی سبیلیں لگا رکھی ہیں، تم صرف نبیذ پلا رہے ہو، ایسا غربت کی وجہ سے ہے یا بخل دامن گیر ہے؟ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: ہمارے ہاں بھوک ہے نہ بخل، اصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ہم نے نبیذ پلایا تھا اور آپ نے ہماری تحسین فرمائی تھی اور اسے جاری رکھنے کی تلقین کی تھی، اس لیے ہم تو آپ ﷺ کے حکم کے مطابق اسی عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3179(1316))