تشریح:
(1) خطبہ مختصر اور جامع ہونا خطیب کی سمجھداری کی علامت ہے، عیدین کا ہو یا جمعے کا۔ حج کا خطبہ تو انتہائی جامع اور مختصر ہونا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران خطبہ میں مسلمان کے خون اور مال کی حرمت و تقدس کو شہر مکہ، ماہ ذوالحجہ اور یوم عرفہ کی حرمت کے مساوی قرار دیا۔ جاہلیت کے بعض اعمال فاسدہ اور عقائد باطلہ کا خاتمہ فرمایا اور کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کی تلقین کی۔ (حجۃالنبی صلی اللہ علیہ وسلم للالبانی:72) (2) واضح رہے کہ خطبہ نماز سے پہلے ہے، لیکن حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر و عصر کی نماز کو جمع کیا، پھر لوگوں کو خطبہ دیا۔ (سنن ابی داؤد،المناسک،حدیث:1913) البتہ صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عرفات پہنچنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا، پھر کسی نے اذان دی اور اقامت کہی تو آپ نے ظہر کی نماز ادا فرمائی، پھر اقامت کہی تو نماز عصر پڑھی۔ ان دونوں کے درمیان کچھ نہ پڑھا، (صحیح مسلم،الحج،حدیث:2950(1218)) اس لیے صحیح مسلم کی روایت کو ابوداود کی حدیث پر ترجیح دیتے ہوئے خطبہ نماز سے پہلے پڑھنا چاہیے۔