تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس جب گائے کا گوشت لایا گیا تو انہوں نے اس کے متعلق پوچھا۔ اگر انہوں نے اجازت دی ہوتی تو پوچھنے کی ضرورت نہ پڑتی، البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے ازواج مطہرات سے اس کی اجازت لی ہو لیکن جب گوشت سامنے آیا تو سوال کیا کہ آیا یہ وہی گوشت ہے جس کی ہم نے اجازت دی تھی یا کوئی دوسرا ہے، البتہ یہ تاویل امام بخاری کے مقصد کے خلاف ہے اور حدیث کا سیاق بھی اسے قبول نہیں کرتا۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص دوسرے کی طرف سے اس کی اجازت یا اس کے علم میں لائے بغیر کوئی کارخیر سرانجام دیتا ہے تو اسے ثواب پہنچتا ہے، نیز اس میں گائے وغیرہ کی قربانی میں شراکت کا ثبوت بھی ہے۔ (3) اس حدیث کی بنا پر بعض علماء کے نزدیک گائے کو نحر کرنا بھی جائز ہے لیکن ذبح کرنا مستحب ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تَذْبَحُوا بَقَرَةً﴾ ’’بےشک اللہ تعالیٰ تمہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے۔‘‘ (البقرة:67:2، و فتح الباري:695/3)