تشریح:
(1) اس حدیث میں حين أحرم سے مراد احرام باندھنے کا ارادہ کرنا ہے اور حين أحل سے مراد احرام سے حلال ہو جانا ہے کیونکہ دوران احرام میں خوشبو کا استعمال منع ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے مذکورہ عنوان اس طرح ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مزدلفہ سے واپس منیٰ لوٹے تو حضرت عائشہ ؓ آپ کے ہمراہ نہ تھیں اور یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جمرۂ عقبہ کو رمی کرنے تک سوار رہے۔ (سنن النسائي، مناسك الحج، حدیث:3063) اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے آپ کو رمی کے بعد خوشبو لگائی ہو گی۔ جمہور علماء کا یہی موقف ہے کہ رمی اور حلق کے بعد خوشبو وغیرہ استعمال کی جا سکتی ہے، البتہ عورتوں سے صحبت کرنا درست نہیں، وہ طواف زیارت کے بعد جائز ہے، چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جب تم جمرۂ عقبہ کی رمی سے فارغ ہو جاؤ تو تمہارے لیے عورتوں کے علاوہ ہر چیز حلال ہے۔ (سنن النسائي، مناسك الحج، حدیث:3086) لیکن مذکورہ اجازت مشروط ہے کہ شام سے پہلے پہلے طواف زیارت کر لیا جائے۔ اگر شام تک طواف نہ کر سکے تو احرام کی پابندیاں لوٹ آئیں گی جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ دس ذوالحجہ کو شام کے وقت جب رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میرے پاس حضرت وہب بن زمعہ قمیص پہنے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ابو عبداللہ! کیا تو نے طواف افاضہ کر لیا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں طواف افاضہ نہیں کر سکا۔ آپ نے فرمایا: ’’تو پھر اپنی قمیص اتار دو۔‘‘ (وہ فرماتے ہیں کہ) میں نے جب قمیص اتار دی تو آپ نے فرمایا: ’’اس دن تمہیں رخصت دی گئی ہے کہ جمرۂ عقبہ کی رمی کے بعد تم عورتوں کے علاوہ ہر قسم کی پابندی سے آزاد ہو لیکن اگر تم شام سے پہلے پہلے طواف افاضہ نہ کر سکو تو احرام کی پابندیاں تم پر لوٹ آئیں گی، یہاں تک کہ تم طواف افاضہ کر لو۔‘‘ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1999) علامہ البانی ؒ نے اس موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے۔ (مناسك الحج والعمرة للألباني رحمه اللہ، حدیث:34)