تشریح:
1۔ ابن بطال نے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے لیے کسی دوسرے سے وضو کا پانی منگوانا ناپسند خیال کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ہم کسی دوسرے کو اپنے وضو میں شریک نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن استنادی اعتبار سے یہ روایت صحیح نہیں۔ صحیح روایت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وضو کے متعلق دوسروں سے تعاون لینا ثابت ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کو وضو کرا سکتا ہے۔ اس بات پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ مریض کو جب تیمم کرنے کی طاقت نہ ہوتو دوسرا شخص اسے تیمم کرا سکتا ہے۔ مگر جب مریض نماز پڑھنے کی طاقت نہ رکھتا ہوتو کوئی دوسراشخص اس کی طرف سے نماز نہیں پڑھ سکتا ہے۔ (شرح ابن بطال: 278/1)
2۔ وضو کے سلسلے میں اعانت کی تین صورتیں ہیں:(الف)۔ کسی شخص سے وضو کرنے کے لیے پانی منگوانا، اس میں کوئی کراہت نہیں، یہ بلاشبہ جائز ہے۔ لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اسے خلاف اولیٰ قرار دیا ہے۔ (ب)۔ وضو خود کرے لیکن اعضائے وضو پرپانی ڈالنے کے لیے کسی دوسرے سے مدد لے، یہ بھی جائز ہے، لیکن اسے بہتر نہیں قرار دیا جاسکتا۔ (ج)۔ عمل وضو میں مدد لینا، یعنی پانی دوسرا شخص ڈالے اور اعضائے وضو کو بھی دھوئے، اس قسم کی مدد کسی مجبوری کی وجہ سے تو جائز ہے لیکن بلاوجہ ایسا کرنا ناپسندیدہ فعل ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان میں تو اعانت کی اقسام کی گنجائش ہے، لیکن جو روایات پیش فرمائی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اعانت کی دوسری قسم کا جواز پیش نظر ہے کیونکہ ان روایات میں صراحت ہے کہ حضرت اسامہ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما صرف پانی ڈال رہے تھے، لیکن وضو کا عمل خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سرانجام دیتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس قسم کی خدمات، خدام سے لی جاسکتی ہیں۔ (عمدة القاري: 516/2)
3۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا: ’’نماز کی جگہ تیرے آگے ہے۔‘‘ دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے مزدلفہ جا رہے تھے۔ نویں ذوالحجہ کو (نو اور دس ذوالحجہ کی درمیانی شب) نماز مغرب اور نمازعشاء مزدلفہ میں ادا کی جاتی ہیں، اس لیے آپ نے فرمایا کہ آج مغرب کی نماز کا مقام مزدلفہ ہے جو آگے آ رہا ہے، وہاں مغرب اور عشاء دونوں نمازیں اکھٹی ادا کی جاتی ہیں۔ اس کے متعلق دیگرمسائل کتاب الحج میں بیان ہوں گے۔ إن شاء اللہ۔
4۔ واضح رہے کہ مذکورہ عنوان مستقل نہیں بلکہ باب در باب کی قسم سے ہے کیونکہ اس سے پہلے عنوان تھا کہ بول وبراز کے راستے سے کسی چیز کا خارج ہونا ناقض وضوہے۔ یہ دونوں احادیث بھی اس عنوان کے ثبوت کے لیے تھیں لیکن ان احادیث سے ایک نیا فائدہ بھی معلوم ہو رہا تھا، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی آگاہی کے لیے ایک نیا عنوان قائم کر دیا کہ وضو کے سلسلے میں کسی دوسرے سے مدد لی جا سکتی ہے۔