تشریح:
(1) حج میں رکاوٹ کا مطلب یہ ہے کہ وقوف عرفہ نہ ہو سکتا ہو جو حج کا رکن اعظم ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے حج کی رکاوٹ کو عمرے کی رکاوٹ پر قیاس کیا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ کے نزدیک حج یا عمرے کا مشروط احرام باندھنا درست نہیں، حالانکہ دیگر حضرات نے اسے جائز رکھا ہے، چنانچہ امام ترمذی ؒ نے روایت بیان کی ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ مشروط احرام کا انکار کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: کیا تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی سنت کافی نہیں؟ (جامع الترمذي، الحج، حدیث:942) لیکن امام بخاری ؒ نے اس حصے کو روایت سے حذف کر دیا ہے۔ (2) امام بیہقی ؒ کہتے ہیں کہ اگر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو ضباعہ بنت زبیر کی حدیث معلوم ہوتی تو مشروط احرام کا انکار نہ کرتے۔ حضرت ضباعہ کی حدیث یہ ہے: ضباعہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی: اللہ کے رسول! میرا حج کرنے کا ارادہ ہے لیکن میں بیمار ہوں، ایسی صورت میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: ’’حج کرو اور اللہ سے شرط کر لو: اے اللہ! میں اسی جگہ احرام کھول دوں گی جہاں تو مجھے روک دے گا۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:2902(1207)) امام بخاری ؒ نے اس روایت کو کتاب النکاح میں بیان کیا ہے، جس سے متعلق مکمل بحث آئندہ آئے گی۔ امام ابن حزم ؒ نے اس مسئلے پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ (فتح الباري:13/4)