تشریح:
(1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ مدینہ طیبہ کے حرم ہونے میں کوئی شبہ نہیں، البتہ جہاں تک کھجوریں کاٹنے کا معاملہ ہے تو وہ ایک ضرورت کے پیش نظر تھا، یعنی اس سے مسجد نبوی کی تیاری مقصود تھی اور یہ بھی اللہ کے اذن سے ایسا ہوا جیسا کہ حرم مکہ میں ضرورت کے پیش نظر قتال کی اجازت دی گئی تھی، نیز حرم کے ایسے درختوں کو کاٹنا منع ہے جو وہاں خود بخود اُگے ہوں۔ جن درختوں کو خود کاشت کیا گیا ہو جیسا کہ باغات میں کھجوروں کے درخت لگائے جاتے ہیں تو ایسے درختوں کو کاٹنا منع نہیں۔ جن کھجوروں کو کاٹا گیا وہ بنو نجار کی خود کاشتہ تھیں۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ کھجوریں کاٹنے کی ضرورت ہجرت کے فورا بعد پیش آئی جبکہ مدینہ کو حرم قرار دینے کا واقعہ غزوۂ خیبر سے واپسی کا ہے، اس لیے بھی یہ واقعہ ان لوگوں کی دلیل نہیں بن سکتا جو اس کے پیش نظر حرم مدینہ کو تسلیم نہیں کرتے۔ (فتح الباري:108/4)