تشریح:
(1) استقبال رمضان کے پیش نظر اس ماہ مبارک سے ایک یا دو دن پہلے روزہ جائز نہیں۔ مخصوص حالات کے پیش نظر ان دنوں کے روزے رکھے جا سکتے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ ایک شخص پیر یا جمعرات کا روزہ رکھتا ہے۔ اتفاق سے شعبان کا آخری دن پیر یا جمعرات ہو تو اس دن کا روزہ رکھنا جائز ہے۔ ٭ کسی کے ذمے قضا کے روزے تھے وہ رمضان سے ایک یا دو دن قبل انہیں رکھ سکتا ہے۔ ٭ کفارے اور نذر کا روزہ بھی ان دنوں میں رکھا جا سکتا ہے، البتہ رمضان کے استقبال کی نیت سے ایک یا دو دن پہلے روزہ رکھنا درست نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے روزوں کو رؤیت ہلال سے مقید فرمایا ہے۔ گویا رؤیت ہلال رمضان کے روزوں کی علت ہے اور جس نے بطور استقبال رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ رکھا اس نے علت میں طعن کیا اور اسے معیوب قرار دیا ہے۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ احتیاط کے پیش نظر رمضان سے ایک یا دو دن پہلے استقبالی روزہ رکھنا منع ہے۔ امام ترمذی ؒ نے بھی اس حدیث کا یہی مفہوم بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:165/4) اس حکم امتناعی کی وجہ یہ ہے کہ آئندہ رمضان کے روزے رکھنے میں قوت اور نشاط حاصل ہو، نیز نفلی روزہ، فرض روزے کے ساتھ مل کر لوگوں میں شک نہ پیدا کر دے۔