تشریح:
(1) معلوم ہوا کہ سحری دیر سے کرنی چاہیے۔ یہ بات خلاف سنت ہے کہ آدھی رات کو انسان سحری کھا کر سو جائے۔ مسنون یہ ہے کہ طلوع فجر سے تھوڑا وقت پہلے سحری سے فراغت ہو، پھر نماز فجر کی تیاری میں مصروف ہو جانا چاہیے۔ حضرت حذیفہ ؓ فرماتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سحری کی تو دن کے روشن ہونے تک سحری کھاتے رہے، البتہ سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔ (سنن النسائي، الصیام، حدیث:2154) یہ روایت حضرت زید بن ثابت ؓ والی حدیث کے مخالف ہے۔ علماء نے اس کے مختلف جواب دیے ہیں۔ راجح بات یہ ہے کہ حضرت حذیفہ کی روایت مرفوعا صحیح نہیں، اس لیے صحیح دلائل کے مخالف نہیں ہو سکتی۔ اور اگر اسے صحیح تسلیم کر لیا جائے تو پھر یہ منسوخ ہو گی اور حضرت زید کی روایت اور اس موضوع کے دیگر دلائل اس کے ناسخ ہوں گے۔ (ذخیرةالعقبیٰ شرح سنن النسائي:350/20) (2) قرآن کریم نے سفید دھاگے کے نمایاں ہونے سے روزہ فرض کیا ہے، اس کے بعد کھانا پینا حرام ہے تو اس کے بعد سحری کیسے جائز ہو سکتی ہے؟ الغرض حضرت حذیفہ ؓ کی مذکورہ حدیث قرآن کریم کے خلاف ہے، اس کے علاوہ حضرت زید ؓ کی حدیث پر شیخین نے اتفاق کیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ ابن ام مکتوم کی اذان تک کھانے پینے کی اجازت ہے، الغرض انسان کو نماز فجر سے قبل سحری سے فراغت حاصل کر لینی چاہیے۔ (فتح الباري:178/4)