تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا سحری سے متعلق امر وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے، چنانچہ تمام محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سحری کھانا مستحب ہے، واجب نہیں کیونکہ امر اس وقت وجوب کے لیے ہوتا ہے جب اس میں وجوب کے خلاف کوئی قرینہ نہ پایا جائے لیکن یہاں اس کے خلاف قرینہ موجود ہے کہ آپ نے اور آپ کے صحابہ نے وصال فرمایا ہے۔ اگر سحری واجب ہوتی تو وصال ثابت نہ ہوتا۔ (عمدةالقاري:68/8) (2) سحری میں برکت کے کئی پہلو ہیں: سنت کی اتباع، مخالفت اہل کتاب، عبادت کے لیے طاقت کا باعث اور اللہ کے اجروثواب کا ذریعہ۔ (فتح الباري:179/4) حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سحری باعث برکت ہے اسے مت ترک کرو اگرچہ پانی کے ایک گھونٹ سے ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ سحری کرنے والوں پر رحمت بھیجتا ہے اور فرشتے ان کے لیے دعا کرتے ہیں۔‘‘ (مسندأحمد:44/3)