تشریح:
(1) دین اسلام دین فطرت ہے۔ اس میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق ہدایات موجود ہیں۔ یہاں بیوی کے تعلقات کو کسی حالت میں نظرانداز نہیں کیا گیا۔ اس میں بحالت روزہ بیوی سے بوس و کنار کو جائز رکھا گیا ہے بشرطیکہ ایسے حالات میں فریقین کو اپنے آپ پر کنٹرول ہو، البتہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے اس شخص کے متعلق سوال کیا گیا جو اپنی بیوی کو بوسہ دے جبکہ وہ دونوں روزے سے ہوں تو آپ نے فرمایا: ’’دونوں کا روزہ جاتا رہا۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الصیام، حدیث:1686) لیکن یہ حدیث صحیح نہیں کیونکہ اس میں ایک راوی ابو یزید ضِني مجہول ہے۔ امام دارقطنی نے فرمایا: یہ حدیث ثابت نہیں۔ امام بخاری ؒ نے بھی اسے "منکر" قرار دیا ہے۔ (عمدةالقاري:86/8) (2) حضرت عائشہ ؓ کے ہنسنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود ہی صاحب واقعہ ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ ایسے موقع پر ہنس دینا کبھی شرمندگی کی وجہ سے ہوتا ہے کہ اپنے حالات کی خود ہی خبر دے رہی ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ اس سے اپنا مرتبہ اور مقام بنانا مقصود ہے جس سے آپ خوش ہوئی تھیں۔ (فتح الباري:195/4) یاد رہے کہ یہ بات سیدہ عائشہ ؓ سے ان کے بھانجے سیدنا عروہ ؒ بیان کرتے ہیں۔