تشریح:
(1) ستو چونکہ پانی میں تیار کیے جاتے ہیں اور اس وقت یہی کچھ موجود تھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انہیں تیار کرنے کا حکم دیا۔ امام بخاری ؒ نے اسی سے عنوان ثابت کیا ہے۔ اس کے علاوہ ترمذی میں ہے کہ روزے دار کو چاہیے کہ وہ کھجور سے روزہ افطار کرے اور اگر کھجور نہ ملے تو پانی سے روزہ کھول لے۔ (سنن الترمذي، الصیام، حدیث:694) (2) چونکہ افطاری کے وقت روزے دار کی دعا قبول ہوتی ہے، اس لیے مندرجہ ذیل دعا پڑھنا مسنون ہے: (ذهب الظمأُ وابتلتِ العروقُ وثبت الأجرُ إن شاءالله) ’’پیاس ختم ہو گئی اور رگیں تر ہو گئیں اور اللہ کے ہاں اجر، ان شاءاللہ، ثابت ہو گیا۔‘‘ (سنن أبي داود، الصیام، حدیث:2357) (3) واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کے مخاطب حضرت بلال ؓ تھے جیسا کہ ابوداود کی روایت میں صراحت ہے۔ (سنن أبي داود، الصیام، حدیث:2352) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پانی کا بندوبست کرنے والے کو بلایا، رسول اللہ ﷺ کی مذکورہ خدمت سرانجام دینے والے حضرت بلال ؓ ہیں جیسا کہ دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ (4) اس حدیث سے اظہار خیال کی آزادی ثابت ہوتی ہے اگرچہ وہ خیال امر واقعہ کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اس لیے ہر شخص کو اپنے اظہار خیال کا حق ہے مگر جب وہ غلط ثابت ہو جائے تو حق کو تسلیم کرنا انتہائی ضروری ہے۔