تشریح:
(1) حضرت امیر معاویہ ؓ نے امارت کے بعد پہلا حج 44 ہجری میں کیا اور دوسرا 57 ہجری میں کیا۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ کلمات انہوں نے دوسرے حج کے موقع پر ارشاد فرمائے اور حج کے بعد وہ دس محرم تک مدینہ طیبہ میں ٹھہرے۔ اہل مدینہ اس دن روزے کے متعلق اہتمام نہیں کرتے تھے، اس لیے انہوں نے علماء کے حوالے سے بات کی۔ (2) سابقہ احادیث سے معلوم ہوا کہ یہودونصاریٰ اور قریش اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی اس دن روزہ رکھنے کی حیثیت کو برقرار رکھا حتی کہ ہجرت کے پہلے سال مدینہ طیبہ میں نہ صرف خود اس کا اہتمام کیا بلکہ دوسروں کو حکم دیا کہ وہ اس دن کا روزہ رکھیں۔ (3) تمام احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے عاشوراء کے روزے کے متعلق مندرجہ ذیل حقائق سامنے آتے ہیں: ٭ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشوراء کا روزہ فرض تھا اور یہ فرضیت ایک سال تک رہی کیونکہ رسول اللہ ﷺ ربیع الاول کے مہینے میں مدینہ طیبہ تشریف لائے اور آئندہ سال روزوں کی فرضیت نازل ہوئی۔ ٭ عام اعلان کے ذریعے سے اس کی فرضیت کی تشہیر کی جیسا کہ حضرت سلمہ بن اکوع کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے، پھر آپ نے ماؤں کو حکم دیا کہ وہ شیر خوار بچوں کو دودھ نہ پلائیں جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ کے آس پاس انصار کی آبادیوں میں عاشوراء کی صبح یہ پیغام بھیجا کہ جس نے آج روزہ رکھا ہے وہ اسے مغرب تک پورا کرے اور جس نے نہیں رکھا وہ بھی بقیہ دن تک کچھ نہ کھائے پیے۔ حضرت ربیع بنت معوذ کہتی ہیں: اس اعلان کے بعد ہم خود بھی روزہ رکھتیں اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتیں۔ جب ہم اپنے بچوں کو مسجد میں لے جاتیں تو ان کے لیے اون کا کھلونا ساتھ لے جاتیں۔ جب وہ بھوک کی وجہ سے روتے تو انہیں بہلانے کے لیے کھلونے ان کے سامنے کر دیتیں تاکہ شام تک اپنے روزے کو پورا کریں۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2669(1136)) ٭ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت کو ختم کر دیا گیا، البتہ اس کے استحباب کو باقی رکھا گیا۔ علمائے اصول کا اس میں اختلاف ہے کہ جب کسی امر کی فرضیت ختم ہو جائے تو اس کی اباحت باقی رہتی ہے یا نہیں؟ امام شافعی ؒ کا موقف ہے کہ اگر کوئی حکم منسوخ ہو جائے تو اس کا جواز باقی رہتا ہے جبکہ احناف کے ہاں اس کا جواز بھی ختم ہو جاتا ہے۔ عاشوراء کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ’’جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے‘‘ اس کے جواز کی دلیل ہے، نیز حدیث میں ہے کہ رسول اللھ ﷺ عاشوراء کے روزے کا حکم دیتے تھے۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ نے اس کے متعلق نہ حکم دیا اور نہ اس سے منع ہی کیا۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2652(1128)) بلکہ حضرت معاویہ ؓ کی حدیث سے اس کا استحباب معلوم ہوتا ہے۔ ٭ حدیث میں اس دن روزہ رکھنے کی فضیلت بایں الفاظ بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس دن روزہ رکھنے سے گزشتہ ایک سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2746(1162)) ٭ یوم عاشوراء سے مراد دس محرم ہے لیکن ابن عباس ؓ سے ایک روایت ہے کہ وہ عاشوراء سے مراد نو محرم لیتے تھے۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2664(1133)) حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ بھی نویں محرم کا روزہ رکھتے تھے۔ (حوالہ مذکور) لیکن جمہور محدثین کے نزدیک عاشوراء سے مراد دس محرم ہے، البتہ رسول اللہ ﷺ نے یہود کی مخالفت کرتے ہوئے یہ فرمایا تھا کہ اگر میں زندہ رہا تو آئندہ سال نویں کا روزہ رکھوں گا، چنانچہ حدیث میں ہے جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ نے دس محرم کا روزہ رکھا اور اس دن روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا۔ لوگوں نے کہا کہ یہودی اور عیسائی بھی اس دن کی تعظیم کرتے ہیں (اور روزہ رکھتے ہیں)۔ آپ نے فرمایا: ’’آئندہ سال ہم نو محرم کا روزہ رکھیں گے۔‘‘ لیکن آئندہ اس دن سے پہلے ہی آپ وفات پا گئے۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2666(1134)) ایک روایت میں ہے کہ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نو محرم کا ضرور روزہ رکھوں گا۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2667(1134)) امام بیہقی ؒ فرماتے ہیں: اس سے مراد دسویں کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنا ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:278/4) حضرت ابن عباس ؓ کا فتویٰ بھی ہے کہ نویں اور دسویں کا روزہ رکھو اور اس سلسلے میں یہود کی مخالفت کرو۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:287/4) (4) ہمارے نزدیک عاشوراء محرم کے روزے کی تین صورتیں حسب ذیل ہیں: ٭ بہترین صورت یہ ہے کہ نویں اور دسویں کا روزہ رکھا جائے کیونکہ دسویں کا روزہ تو حقیقت ثابتہ ہے لیکن نویں محرم کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے اپنی خواہش کا اظہار فرمایا اگرچہ رفیق اعلیٰ سے ملاقات کی وجہ سے اس کی تکمیل نہ ہو سکی۔ ٭ اس سے کم درجہ یہ ہے کہ دسویں اور گیارہویں محرم کا روزہ رکھا جائے۔ ٭ سب سے کم درجہ یہ ہے کہ صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔ صرف نویں کا روزہ رکھنا کئی ایک لحاظ سے محل نظر ہے۔ اسلامی اعتبار سے عاشوراء محرم کی یہی حقیقت و اہمیت ہے، لہذا اس دن اظہار تشکر کے لیے روزہ رکھا جائے، البتہ یہود کی مخالفت کرتے ہوئے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا روزہ بھی اس کے ساتھ رکھا جائے۔ واللہ أعلم