تشریح:
(1) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے خواب آخری عشرے پر متفق ہیں، اس لیے اگر کوئی شب قدر کو تلاش کرنا چاہے تو وہ آخری عشرے میں اسے تلاش کرے۔‘‘ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث:1158) (2) حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں شب قدر کے متعلق دو گروہوں نے خواب دیکھے۔ ایک گروہ کا خواب تھا کہ وہ آخری سات راتوں میں ہے اور دوسرے گروہ کا خواب تھا کہ وہ آخری عشرے میں ہے۔ اس کی تفصیل صحیح بخاری میں موجود ہے۔ (صحیح البخاري، التعبیر، حدیث:6991) آپ نے پہلے تو آخری عشرے میں شب قدر کا خواب دیکھنے والوں سے فرمایا: ’’تمہارا سب کا اتفاق ہے آخرے عشرے پر ہے، لہذا تم شب قدر اسی عشرے میں تلاش کرو۔‘‘ بلکہ ایک روایت کے مطابق آپ نے آخری عشرے کی طاق راتوں میں انہیں تلاش کرنے کا حکم دیا۔ (صحیح البخاري، فضل لیلةالقدر، حدیث:2017) پھر آپ نے دیکھا کہ آخری سات راتوں پر دونوں گروہوں کا اتفاق ہے تو آپ نے جزم کے ساتھ آخری سات راتوں میں اسے تلاش کرنے کے متعلق کہا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی مذکور روایت میں ہے۔ پھر آخری سات راتوں کے متعلق بھی اختلاف ہے۔ ظاہر حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعداد چوبیسویں رات سے شروع ہو گی تو اس میں اکیسویں اور تئیسویں رات شامل نہیں ہو گی جبکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ بائیس سے شروع ہو کر اٹھائیس تک سات راتیں مراد ہیں، اس صورت میں انتیسویں رات اس میں شامل نہیں ہو گی۔ ہمارے نزدیک فیصلہ کن صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے آخری عشرے میں تلاش کرو۔ اگر کسی وجہ سے کمزور یا مغلوب ہو جاؤ تو باقی سات راتوں میں اسے تلاش کر کے غلبہ حاصل کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2765(1165)) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری سات راتوں سے مراد تئیس سے شروع کر کے آخر تک ہیں۔ (فتح الباري:325/4)