قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: کِتَابُ فَضْلِ لَيْلَةِ القَدْرِ (بَابُ تَحَرِّي لَيْلَةِ القَدْرِ فِي الوِتْرِ مِنَ العَشْرِ الأَوَاخِرِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: فِيهِ عَنْ عُبَادَةَ

2019. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «التَمِسُوا»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اس باب میں عبادہ بن صامت سے روایت ہے۔ تشریح : لیلۃ القدر کا وجود، اس کے فضائل اور اس کا رمضان شریف میں واقع ہونا یہ چیزیں نصوص قرآنی سے ثابت ہیں، جیسا کہ سورۃ قدر میں مذکور ہے۔ اور اس بارے میں احادیث صحیحہ بھی بکثرت وارد ہیں۔ پھر بھی آج کل کے بعض منکرین حدیث نے لیلۃ القدر کا انکار کیا ہے جن کا قول ہرگز توجہ کے قابل نہیں ہے۔ علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں واختلف فی المراد الذی اضیفت الیہ اللیلۃ فقیل المراد بہ التعظیم کقولہ تعالیٰ و ما قدروا اللہ حق قدرہ و المعنی انہا ذات قدر لنزول القرآن فیہا یعنی یہاں قدر سے کیا مراد ہے، اس بارے میں اختلاف ہے، پس کہا گیا ہے کہ قدر سے تعظیم مراد ہے جیسا کہ آیت قرآنی میں ہے یعنی ان کافروں نے پورے طور پر اللہ کی عظمت کو نہیں پہچانا۔ آیت شریفہ میں جس طرح قدر سے تعظیم مراد ہے۔ یہاں بھی اس رات کے لیے تعظیم مراد ہے۔ اس لیے کہ یہ رات وہ ہے جس میں قرآن کریم کا نزول شروع ہوا۔ قال العلماءسمیت لیلۃ القدر لما تکتب فیہا الملئکۃ من الاقدار لقولہ تعالیٰ فیہا یفرق کل امر حکیم ( فتح ) یعنی علماءکا ایک قول یہ بھی ہے کہ اس کا نام لیلۃ القدر اس لیے رکھا گیا کہ اس میں اللہ کے حکم سے فرشتے آنے والے سال کی کل تقدیریں لکھتے ہیں۔ جیسا کہ آیت قرآنی میں مذکور کہ اس میں ہر محکم امر لکھا جاتا ہے۔ اس رات کے بارے میں علماءکے بہت سے اقوال ہیں جن کو حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ جنہیں46 اقوال کی تعداد تک پہنچا دیا ہے۔ آخر میں آپ نے اپنا فاضلانہ فیصلہ ان لفظوں میں دیا ہے۔ وارجحہا کلہا انہا فی و ترمن العشر الاخیر و انہا تنتقل کما یفہم من احادیث ہذا الباب یعنی ان سب میں ترجیح اس قول کو حاصل ہے کہ یہ مبارک رات رمضان شریف کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہوتی ہے۔ اور یہ ہر سال منتقل ہوتی رہتی ہے جیسا کہ اس باب کی احادیث سے سمجھا جاتا ہے۔ شافعیہ نے اکیسویں رات کو ترجیح دی ہے اور جمہو رنے ستائیسویں رات کو مگر صحیح تر یہی ہے کہ اسے ہر سال کے لیے کسی خاص تاریخ کے ساتھ متعین نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہر سال منتقل ہوتی رہتی ہے اور یہ ایک پوشیدہ رات ہے۔ قال العلماءالحکمۃ فی اخفاءالقدر لیحصل الاجتہاد فی التماسہا بخلاف ما لوعینت لہا لیلۃ لاقتصر علیہا کما تقدم نحوہ فی ساعۃ الجمعۃ یعنی علماءنے کہا کہ اس رات کے مخفی ہونے میں یہ حکمت ہے تاکہ اس کی تلاش کے لیے کوشش کی جائے۔ اگر اسے معین کر دیا جاتا تو پھر اس رات پر اقتصار کر لیا جاتا۔ جیسا کہ جمعہ کی گھڑی کی تفصیل میں پیچھے مفصل بیان کیا جا چکا ہے۔ مترجم کہتا ہے کہ اس سے ان لوگوں کے خیال کی بھی تغلیط ہوتی ہے جو اسے ہر سال اکیسویں یا ستائیسویں شب کے ساتھ خاص کرتے ہیں۔ مختلف آثار میں اس رات کی کچھ نشانیاں بھی بتلائی گئی ہیں، جن کو علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے مفصل لکھا ہے۔ مگر وہ آثار بطور امکان ہیں۔ بطور شرط کے نہیں، جیسا کہ بعض روایات میں اس کی ایک علامت بارش کاہونا بھی بتلایا گیا ہے۔ مگر کتنے ہی رمضان ایسے گزر جاتے ہیں کہ ان میں بارش نہیں ہوتی، حالانکہ ان میں لیلۃ القدر کا ہونا برحق ہے۔ پس بہت دفعہ ایسا ہونا ممکن ہے کہ ایک شخص نے عشرہ آخر کی طاق راتوں میں قیام کیا اور اسے لیلۃ القدر حاصل بھی ہو گئی، مگر اس نے اس رات میں کوئی امر بطور خوارق عادت نہیں دیکھا۔ اس لیے حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں فلا نعتقد ان لیلۃ القدر لا ینالہا الا من رای الخوارق بل فضل اللہ واسع یعنی ہم یہ اعتقاد نہیں رکھتے کہ لیلۃ القدر کو وہی پہنچ سکتا ہے جو کوئی امر خارق عادت دیکھے، ایسا نہیں ہے بلکہ اللہ کا فضل بہت فراخ ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا تھا، حضور ! میں لیلۃ القدر میں کیا دعا پڑھو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ یہ دعا بکثرت پڑھا کرو اللہم انک عفو تحب العفو فاعف عنی ) یا اللہ ! تو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے پس تو میری خطائیں معاف کردے۔ امید ہے کہ لیلۃ القدر کی شب بیداری کرنے میں بخاری شریف کا مطالعہ فرمانے والے معزز بھائی مترجم و معاونین سب کو اپنی پاکیزوں دعاؤں میں شامل کر لیا کریں۔ شنیدم کہ در روز امید و بیم بداں رابہ نیکاں بہ بخشد کریمآمین ثم الجمہور علی انہا مختصۃ بہذہ الامۃ و لم تکن لمن قبلہم قال الحافظ و جزم بہ ابن حبیب وغیرہ من المالکیۃ کالباجی و ابن عبدالبر و نقلہ عن الجمہور صاحب العدۃ من الشافعیۃ و رجحہ و قال النووی انہ الصحیح المشہور الذی قطع بہ اصحابنا کلہم و جماہیر العلماءقال الحافظ وہو معترض بحدیث ابی ذر عند النسائی حیث قال فیہ قلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتکون مع الانبیاءفاذا ماتوا رفعت قال لا بل ہی باقیۃ و عمدتہم قول مالک فی الموطا بلغنی ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقاصر اعمار امتہ عن اعمار الامم الماضیۃ فاعطاہ اللہ لیلۃ القدر و ہذا یحتمل التاویل بل یدفع الصریح فی حدیث ابی ذر انتہی۔ قلت حدیث ابی ذر ذکرہ ابن قدامہ 179/3 من غیر ان یعزوہ لاحد بلفظ قلت یا نبی اللہ اتکون مع الانبیاءما کانوا فاذا قبضت الانبیاءو رفعوا رفعت معہم او ہی الی یوم القیامۃ قال بل ہی الی یوم القیامۃ و اما اثر الموطا فقال مالک فیہ انہ سمع من یثق بہ من اہل العلم یقول ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اری اعمار الناس قبلہ او ماشاءاللہ من ذلک فکانہ تقاصر اعمار امتہ ان لا یبلغوا من العمل مثل الذی بلغ غیرہم فی طول العمر فاعطاہ اللہ لیلۃ القدر خیر من الف شہر.... قلت و اثر الموطا المذکور یدل علی ان اعطاءلیلۃ القدر کان تسلیۃ لہذہ الامۃ القصیرہ الاعمار و یشہد لذلک روایۃ اخری مرسلۃ ذکرہا العینی فی العمدۃ ( ص : 129، ص : 130 ج11 ) جمہور کا قول یہی ہے کہ یہ بات اسی امت کے ساتھ خاص ہے اور پہلی امتوں کے لیے یہ نہیں تھی۔ حافظ نے کہا اسی عقیدہ پر ابن حبیب اور باجی اور ابن عبدالبر علماءمالکیہ نے جزم کیا ہے۔ اور شافعیہ میں سے صاحب العدہ نے بھی اسے جمہور سے نقل کیا ہے۔ حافظ نے کہا کہ یہ حدیث ابوذر رضی اللہ عنہ کے خلاف ہے جسے نسائی نے روایت کیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہے میں نے کہا یا رسول اللہ یہ رات پہلے انبیا کے ساتھ بھی ہوا کرتی تھی کہ جب وہ انتقال کرجاتے تو وہ رات اٹھا دی جاتی۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں، بلکہ وہ رات باقی ہے اور بہترین قول امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا ہے جو انہوں نے موطا میں نقل کیا ہے کہ مجھے پہنچا ہے کہ رسو ل اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کی عمریں کم ہونے کا احساس ہوا جب کہ پہلی امتوں کی عمریں بہت طویل ہوا کرتی تھیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو لیلۃ القدر عطا فرمائی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو تسلی دینا مقصود تھا جن کی عمریں بہت چھوٹی ہیں اور یہ رات ایک ہزار مہینے سے بہتر ان کو دی گئی۔ ( ملخص ) سورۃ شریفہ انا انزلناہ فی الیلۃ القدر کے شان نزول میں واحدی نے اپنی سند کے ساتھ مجاہد سے نقل کیا ہے کہ ذکر النبی صلی اللہ علیہ وسلم رجلا من بنی اسرائیل لبس السلاح فی سبیل اللہ الف شہر فعجب المسلمون من ذلک فانزل اللہ تعالیٰ عزوجل انا انزلناہ الخ قال خیر من الذی لبس السلاح فیہا ذلک الرجل انتہی۔ و ذکر المفسرون انہ کان فی الزمن الاول نبی یقال لہ شمسون علیہ السلام قاتل الکفرۃ فی دین اللہ الف شہر و لم ینزع الثیاب و السلاح فقالت الصحابۃ یا لیت لنا عمراً طویلا حتی نقاتل مثلہ فنزلت ہذہ الایۃ و اخبرﷺ ان لیلۃ القدر خیر من الف شہر الذی لبس السلاح فیہا شمسون فی سبیل اللہ الی آخرہ ذکر العینی یعنی رسول اللہ ﷺ نے بنی اسرائیل میں سے ایک شخص کا ذکر فرمایا جس نے ایک ہزار مہنے تک اللہ کی راہ میں جہاد کیا تھا۔ اس کو سن کر مسلمانوں کو بے حد تعجب ہوا، اس پر یہ سورۃ شریفہ نازل ہوئی۔ مفسرین نے کہا ہے کہ پہلے زمانے میں ایک شمسون نامی نبی تھے۔ جو ایک ہزار ماہ تک اللہ کے دین کے لیے جہاد فرماتے رہے اور اس تمام مدت میں انہوں نے اپنے ہتھیار جسم سے نہیں اتارے، یہ سن کر صحابہ کرام ؓ نے بھی اس طویل عمر کے لیے تمنا ظاہر کی تاکہ وہ بھی اس طرح خدمت اسلام کریں۔ اس پر یہ سورۃ نازل ہوئی، اور بتلایا گیا کہ تم کو صرف ایک رات ایسی دی گئی ہے جو عبادت کے لیے ایک ہزار سے بہتر و افضل ہے۔

2019.

حضرت عائشہ  ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ اپ نے فرمایا: ’’(شب قدر) تلاش کرو۔‘‘