تشریح:
(1) قرض دار اگرچہ مال دار ہی کیوں نہ ہو اس سے بھی درگزر والا معاملہ کرنا چاہیے۔اس پر سختی نہ کی جائے ۔اگر وہ مزید مہلت طلب کرے تو خوش دلی کے ساتھ اسے مہلت دی جائے۔(2) مال دار کون ہے؟اس کی تعریف میں اختلاف ہے،تاہم حالات وظروف کے پیش نظر بعض اوقات انسان ایک درہم کمانے سے غنی ہوجاتا ہے اور کبھی ہزار درہم رکھنے کے باوجود فقیر رہتا ہے کیونکہ اس کے ہاں اہل وعیال کی کثرت ہوتی ہے۔(3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ انتہائی مہربان ہے۔وہ معمولی سی نیکی کے عوض بہت بڑے گناہ گار کو معاف کردیتا ہے کیونکہ انسان جب اچھی نیت سے کوئی نیکی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے وہ خسارے میں نہیں رہتا۔(4) بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مال دار کو مہلت دینے میں اس کے ظلم کا ساتھ دیتا ہے،اس میں اجرو ثواب کی امید نہیں رکھی جاسکتی لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موقف کی تردید فرمائی ہے اور ثابت کیا ہے کہ مال دار کو مہلت دینے میں اجر ملے گا۔بہر حال عرف عام میں جو بھی مال دار ہو اس کے ساتھ بھی حسن سلوک اور اچھے برتاؤ سے پیش آنا چاہیے۔(5) حدیث کے آخر میں (قال فتجا وزواعنه) کا ترجمہ ہم نے یہ کیا ہے:"انھوں نے بھی اس سے نرمی اختیار کی۔"اس لفظ کی دو سورتیں ہیں:اگر (فتجا وزواعنه) ہو اور فعل ماضی ہوتو اس کے معنی وہی ہوں گے جو ہم نے کیے ہیں،یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"فرشتوں نے اس سے نرمی اختیار کی۔" اور(فتجا وزواعنه) اگر فعل امر ہوتو پھر معنی ہوں گے:اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا:"تم بھی اس کے ساتھ نرمی کرو۔"صحیح مسلم وغیرہ سے دوسرے معنی کی تائید ہوتی ہے۔(صحیح مسلم،المساقاۃ،حدیث:3993(1560))