تشریح:
(1)بڑھئی کا پیشہ جائز ہے۔وہ اپنی محنت کی اجرت لیتا ہے جس میں کوئی قباحت نہیں بلکہ وہ ہاتھ کا عمل ہونے کی وجہ سے بہترین کمائی ہے۔(2)عام طور پر یہ حضرات دو طرح سے کام کرتے ہیں:٭لکڑی وغیرہ مالک کی ہوتی ہے،البتہ بڑھئی دروازے، کھڑکیاں وغیرہ بنانے کی مزدوری لیتا ہے۔٭وہ لکڑی بھی اپنی طرف سے لگاتا ہےاور اس پر محنت بھی کرتا ہے۔ایسی صورت میں یہ تجارت اور اجرت ہے۔اس کے جواز میں بھی کوئی شبہ نہیں، البتہ بعض اوقات لکڑی خریدنے کے بعد پتہ چلتا ہےکہ اندر سے بے کار اور کھوکھلی ہے۔ان حضرات کا محاورہ ہے کہ لکڑی اور ککڑی کو چیرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ کس قسم کی ہے۔خراب نکلنے کی صورت میں بڑھئی کو کافی نقصان ہوتا ہے،اس لیے مالک کو چاہیے کہ وہ بڑھئی کے نقصان کی اخلاقی اعتبار سے تلافی کرے۔ بہر حال بڑھئی کا پیشہ اختیار کرنا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر تیار کرنے والا ایک بڑھئی غلام تھا۔آٌپ نے اس کا تیار کردہ منبر استعمال فرمایا اور اس پیشے پر کوئی انکار نہیں کیا۔ایک مسلمان اسے اختیار کرکے رزق حلال تلاش کرسکتا ہے۔