تشریح:
(1) اس حدیث میں صحابۂ کرام ؓ کا بازار میں آنا جانا مذکورہے۔ اگرچہ اس میں بازار کی صراحت نہیں ہے لیکن اکثر طور پر غلہ وغیرہ بازار اور منڈی ہی میں فروخت ہوتا ہے،اس لیے بازار جانے کا جواز ثابت ہوا۔(2)یہ بھی پتہ چلا کہ خریدی ہوئی چیز کو قبضے سے پہلے فروخت کرنا جائز نہیں۔ ہم اس کی وضاحت آئندہ کریں گے۔ بإذن الله.(3) کفار مکہ نے رسول اللہ ﷺ پر متعدد جاہلانہ اعتراضات کیے۔ان میں سے ایک یہ تھا کہ رسول کم ازکم کوئی مافوق البشر ہستی ہونی چاہیے جو حوائج بشریہ (انسانی ضروریات)سے بے نیاز ہو۔کم از کم دنیا کے دھندوں سے آزاد اور تارک دنیا قسم کے لوگوں سے ہو۔بازاروں میں آنا جانا، کسب معاش کے لیے دوڑ دھوپ کرنا ان کے نزدیک شان نبوت کے خلاف تھا۔قرآن کریم نے ان کا اعتراض بایں الفاظ نقل کیا ہے:﴿مَالِ هَـٰذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ﴾ ’’یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتاپھرتا ہے؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس اعتراض کا جواب بایں اسلوب دیا ہے: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الْأَسْوَاقِ﴾ ’’ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے وہ سب کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے۔‘‘ یعنی ان کفار مکہ کو خوب علم ہے کہ سیدنا نوح،سیدنا ابراہیم، سیدنا موسیٰ اور سیدنا عیسیٰ ؑ سب کے سب انسان ہی تھے۔ضروریات زندگی اور حوائج بشریہ ان کے ساتھ لگی ہوئی تھیں اور وہ اپنی زندگی کی بقا کے لیے کھاتے پیتے بھی تھے اور کسب معاش یا خریدوفروخت کی خاطر وہ بازاروں میں چلتے پھرتے بھی تھے،ان سب باتوں کے باوجود لوگ انھیں رسول تسلیم کرتے تھے۔(4) اس سے معلوم ہوا کہ کھانا پینا بازاروں میں چلنا پھرنا بزرگی یا نبوت کے منافی نہیں۔بازاروں میں جس چیز کی ممانعت ہے اس کا ذکر آئندہ باب میں آرہا ہے۔