قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ البُيُوعِ (بَابُ النَّهْيِ عَنْ تَلَقِّي الرُّكْبَانِ وَأَنَّ بَيْعَهُ مَرْدُودٌ)

تمہید کتاب عربی

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: لِأَنَّ صَاحِبَهُ عَاصٍ آثِمٌ إِذَا كَانَ بِهِ عَالِمًا وَهُوَ خِدَاعٌ فِي البَيْعِ، وَالخِدَاعُ لاَ يَجُوزُ

2162. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ الْعُمَرِيُّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ التَّلَقِّي وَأَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ

مترجم:

ترجمۃ الباب: کیوں کہ ایسا کرنے والا جان بوجھ کر گنہگار و خطاکار ہے اور یہ ایک قسم کا فریب ہے جو جائز نہیں۔ تشریح : جب کہیں باہر سے غلہ کی رسد آتی ہے تو بعض بستی والے یہ کرتے ہیں کہ ایک دو کوس بستی سے آگے نکل کر راہ میں ان بیوپاریوں سے ملتے ہیں اور ان کو دغا اوردھوکا دے کر بستی کا نرخ اترا ہوا بیان کرکے ان کا مال خرید لیتے ہیں۔ جب وہ بستی میں آتے ہیں تو وہاں کا نرخ زیادہ پاتے ہیں اور ان کو چکمہ دیا گیا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایسی صورت میں بیع باطل اور لغو ہے۔ بعض نے کہا ایسا کرنا حرام ہے۔ لیکن بیع صحیح ہو جائے گی۔ اور ان کو اختیار ہوگا کہ بستی میں آکر وہاں کا نرخ دیکھ کر اس بیع کو قائم رکھیں یا فسخ کر ڈالیں۔ حنفیہ نے کہا کہ اگر قافلہ والوں سے آگے جاکر ملنا بستی والوں کو نقصان کا باعث ہو تب مکروہ ہے ورنہ نہیں۔

2162.

حضرت ابوہریرہ  ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے (تجارتی قافلوں سے) آگے بڑھ کر ملنے سے منع فرمایا اور اس سے بھی (منع فرمایا) کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کامال تجارت بیچے۔