تشریح:
(1) بیع پر بیع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بائع اور مشتری دونوں کسی قیمت پر اتفاق کرلیں،پھر کوئی شخص مالک سے کہے :تم یہ چیز مجھے زیادہ قیمت پر فروخت کرو یا خریدار سے کہے کہ میں تمھیں اس سے سستی چیز دیتا ہوں۔اس طرح دونوں کے درمیان دخیل ہونا حرام ہے۔ اگر قیمت طے نہ ہوئی ہو تو اس وقت چیز کی بولی دینا اور قیمت بڑھانا جائز ہے۔(2) اس حدیث میں باہر جاکر قافلے والوں سے سامان خریدنے کی ممانعت ہے۔اس کی صورت یہ ہے کہ ایک شہری آدمی سامان تجارت لانے والوں کو شہر کی مارکیٹ میں سامان لانے سے پہلے پہلے راستے ہی میں جاملے تاکہ بھاؤ کے متعلق غلط بیانی کرکے اس سے سستے داموں خریدے اور اس کی اصل قیمت سے کم قیمت پر اسے حاصل کرے۔منع کرنے سے مقصود یہ ہے کہ فروخت کرنے والا دھوکا دیے جانے اور نقصان پہنچائے جانے سے محفوظ رہے۔امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک ایسا کرنا جائز ہے جبکہ یہ احادیث اس بات کا رد کرتی ہیں۔ الغرض بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ شہری بیوپاری بیرونی قافلوں سے غلے کی رسد کو شہر سے دور نکل کو خرید لیتے ہیں اور منڈی میں اسے مہنگے دام فروخت کرتے ہیں۔امام بخاری ؒ کے نزدیک ایسی بیع حرام ہے۔ بعض محدثین کے نزدیک یہ بیع صحیح ہے،البتہ مالک کو اختیار ہے کہ منڈی کا بھاؤ معلوم ہونے کے بعد اگر چاہے تو سودا برقرار رکھے چاہے توفسخ کردے۔والله أعلم.