تشریح:
(1) حضرت عمر ؓ کا استدلال اس صورت میں پورا ہوسکتا ہے جب حدیث کے الفاظ اس طرح ہوں:’’سونا چاندی کے عوض فروخت کرنا سود ہے مگر جبکہ نقد بنقد ہو‘‘ چنانچہ ایک دوسری روایت میں بعینہ یہ الفاظ مروی ہیں جسے امام بخاری ؒ نے بھی بیان کیا ہے۔ ( صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2134) (2) سونے کو چاندی کے عوض یا اس کے برعکس تبدیل کرنا بیع صرف کہلاتا ہے۔ اس میں فوری طور پر قبضہ شرط ہے۔ ادھار کرنا سود ہے، اس لیے حضرت عمر ؓ نے حضرت مالک بن اوس ؓ کو فوری قبضہ کرنے کا حکم دیا۔ (3) حافظ ابن حجر ؓ فرماتے ہیں:اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گندم اور جو الگ الگ جنس ہیں جبکہ امام مالک اور اوزاعی نے انھیں ایک ہی جنس قرار دیا ہے۔ایک روایت میں ہے۔: گندم کو جو کے بدلے جس طرح چاہو فروخت کرو بشرطیکہ سودا نقد بنقد ہو۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:277/5)یہ حدیث صحیح اور صریح ہے کہ یہ دونوں الگ الگ اجناس ہیں۔(فتح الباري:478/4)