قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ البُيُوعِ (بَابُ تَفْسِيرِ العَرَايَا)

تمہید کتاب عربی

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ مَالِكٌ: العَرِيَّةُ: أَنْ يُعْرِيَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ النَّخْلَةَ، ثُمَّ يَتَأَذَّى بِدُخُولِهِ عَلَيْهِ، فَرُخِّصَ لَهُ أَنْ يَشْتَرِيَهَا مِنْهُ بِتَمْرٍ وَقَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ: العَرِيَّةُ: لاَ تَكُونُ إِلَّا بِالكَيْلِ مِنَ التَّمْرِ يَدًا بِيَدٍ، لاَ يَكُونُ بِالْجِزَافِ وَمِمَّا يُقَوِّيهِ قَوْلُ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ: بِالأَوْسُقِ المُوَسَّقَةِ وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: فِي حَدِيثِهِ عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: كَانَتِ العَرَايَا: أَنْ يُعْرِيَ الرَّجُلُ فِي مَالِهِ النَّخْلَةَ، وَالنَّخْلَتَيْنِ وَقَالَ يَزِيدُ: عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ: العَرَايَا: نَخْلٌ كَانَتْ تُوهَبُ لِلْمَسَاكِينِ فَلاَ يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يَنْتَظِرُوا بِهَا، رُخِّصَ لَهُمْ أَنْ يَبِيعُوهَا بِمَا شَاءُوا مِنَ التَّمْرِ

2192. حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ مُقَاتِلٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِي الْعَرَايَا أَنْ تُبَاعَ بِخَرْصِهَا كَيْلًا قَالَ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ وَالْعَرَايَا نَخَلَاتٌ مَعْلُومَاتٌ تَأْتِيهَا فَتَشْتَرِيهَا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

امام مالک  نے کہا کہ عریہ یہ ہے کہ کوئی شخص ( کسی باغ کا مالک اپنے باغ میں ) دوسرے شخص کو کھجور کا درخت ( ہبہ کے طور پر ) دے دے، پھر اس شخص کا باغ میں آنا اچھا نہ معلوم ہو، تو اس صورت میں وہ شخص ٹوٹی ہوئی کھجور کے بدلے میں اپنا درخت ( جسے وہ ہبہ کرچکا ہے ) خرید لے اس کی اس کے لیے رخصت دی گئی ہے اور ابن ادریس ( اما م شافعی ) نے کہا کہ عریہ جائز نہیں ہوتا مگر ( پانچ وسق سے کم میں ) سوکھی کھجور ناپ کر ہاتھوں ہاتھ دے دے یہ نہیں کہ دونوں طرف اندازہ ہو۔ اور اس کی تائید سہل بن ابی حثمہ ؓ کے قول سے بھی ہوتی ہے کہ وسق سے ناپ کر کھجور دی جائے۔ ابن اسحاق ہ نے اپنی حدیث میں نافع سے بیان کیا او رانہوں نے ابن عمر ؓ سے بیان کیا کہ عریہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے باغ میں کھجور کے ایک دو درخت کسی کو عاریتاً دے دے اور یزید نے سفیان بن حسین سے بیان کی کہ عریہ کھجور کے اس درخت کو کہتے ہیں جو مسکینوں کو للہ دے دیا جائے، لیکن وہ کھجور کے پکنے کا انتظار نہیں کرسکتے تو آنحضرت ﷺنے انہیں اس کی اجازت دی کہ جس قدر سوکھی کھجور کے بدل چاہیں اور جس کے ہاتھ چاہیں بیچ سکتے ہیں۔

2192.

حضرت زید بن ثابت  ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عرایا کے متعلق اجازت دی کہ انھیں اندازے سے ناپ کر فروخت کیاجائے۔ حضرت موسیٰ بن عقبہ کہتے ہیں کہ عرایا چند معین کھجوریں ہیں جن کا پھل اتری ہوئی کھجوروں کے عوض خریدا جاتا ہے۔