صحیح بخاری
34. کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
82. باب : بیع مزابنہ کے بیان میں اور یہ خشک کھجور کی بیع درخت پر لگی ہوئی کھجور کے بدلے اور خشک انگور کی بیع تازہ انگور کے بدلے میں ہوتی ہے اور بیع عرایا کا بیان۔
باب : بیع مزابنہ کے بیان میں اور یہ خشک کھجور کی بیع درخت پر لگی ہوئی کھجور کے بدلے اور خشک انگور کی بیع تازہ انگور کے بدلے میں ہوتی ہے اور بیع عرایا کا بیان۔
)
Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: Al-Muzabana, Al-Araya)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
انس ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺنے مزابنہ اور محاقلہ سے منع فرمایا ہے۔ تشریح : اس کو خود امام بخاری نے آگے چل کر وصل کیا ہے، مزابنہ کے معنی تو معلوم ہو چکے۔ محاقلہ یہ ہے کہ ابھی گیہوں کھیت میں ہو، بالیوں میں اس کا اندازہ کرکے اس کو اترے ہوئے گیہوں کے بدلے میں بیچے۔ یہ بھی منع ہے۔ محاقلہ کی تفسیر میں امام شوکانی فرماتے ہیں۔ قد اختلف فی تفسیرہا فمنم من فسرہا فی الحدیث فقال ہی بیع الحقل بکیل من الطعام و قال ابوعبید ہی بیع الطعام فی سنبلہ و الحقل الحرث و موضع الزرع۔ یعنی محاقلہ کی تفسیرمیں اختلاف کیا گیا ہے۔ بعض لوگوں نے اس کی تفسیر اس کھیت سے کی ہے جس کی کھڑی کھیتی کو اندازاً مقررہ مقدار کے غلہ سے بیچ دیا جائے۔ ابوعبید نے کہا وہ غلہ کو اس کی بالیوں میں بیچنا ہے اور حقل کا معنی کھیتی اور مقام زراعت کے ہیں۔ یہ بیع محاقلہ ہے جسے شرع محمدی میں منع قرار دیا گیا۔ کیوں کہ اس میں جانبین کو نفع و نقصان کا احتمال قوی ہے۔ مزابنہ کی تفسیر میں حضرت امام مذکور فرماتے ہیں : والمزابنۃ بالزای و الموحدۃ و النون قال فی الفتح ہی مفاعلۃ من الزبن بفتح الزای و سکون الموحدۃ وہو الدفع الشدید و منہ سمیت الحرب الزبون لشدۃ الدفع فیہا و قیل للبیع المخصوص مزابنۃ کان کل واحد من المتبایعین یدفع صاحبہ عن حقہ او لان احدہما اذا وقف مافیہ من الغبن اراد دفع البیع یفسخہ و اراد الاخر دفعہ عن ہذہ الارادۃ بامضاءالبیع و قد فسرت بما فی الحدیث اعنی بیع النخل باوساق من التمر و فسرت بہذا و بیع العنب بالزبیب کما فی الصحیحین الخ ( نیل ) مزابنہ زبن سے مفاعلہ کا مصدر ہے۔ جس کا معنی رفع شدید کے ہیں، اسی لیے لڑائی کا نام بھی زبون رکھا گیا کیوں کہ اس میں شدت سے مدافعت کی جاتی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیع مخصوص کا نام مزابنہ ہے۔ گویا دینے والا اور لینے والا دونوں میں سے ہر شخص ایک دوسرے کو اس کے حق سے محروم رکھنے کی شدت سے کوشش کرتا ہے یا یہ معنی کہ ان دونوں میں سے جب ایک اس سودے میں غبن سے واقف ہوتا ہے تو وہ اس بیع کو فسخ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور دوسرا بیع کا نفاذ کرکے اسے اس ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور حدیث کی بھی تفسیر کر چکا ہوں۔ یعنی تر کھجور کو خشک کھجور سے بیچنا اور انگوروں کو منقیٰ سے بیچنا جیسا کہ صحیحین میں ہے۔ عہد جاہلیت میں بیوع کے یہ جملہ مذموم طریقے جاری تھے۔ اور ان میں نفع و نقصان ہر دو کا قوی احتمال ہوتا تھا۔ بعض دفعہ لینے والے کے وارے نیارے ہو جاتے اور بعض دفعہ وہ اصل پونچی کو بھی گنوا بیٹھتا۔ اسلام نے ان جملہ طریقہ ہائے بیوع کو سختی سے منع فرمایا۔ آج کل ایسے دھوکہ کے طریقوں کی جگہ لاٹری، سٹہ، ریس وغیرہ نے لے لی ہے۔ جو اسلامی احکام کی روشنی میں نہ صرف ناجائز بلکہ سود بیاج کے دائرہ میں داخل ہیں۔ خرید و فروخت میں دھوکہ کرنے والے کے حق میں سخت ترین وعیدیں آئی ہیں۔ مثلاً ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا من غشنا فلیس منا جو دھوکہ بازی کرنے ولا ہے وہ ہماری امت سے خارج ہے وغیرہ وغیرہ۔ سچے مسلمان تاجر کا فرض ہے کہ امانت، دیانت، صداقت کے ساتھ کاروبار کرے، اس سے اس کو ہر قسم کی برکتیں حاصل ہوں گی اور آخرت میں انبیاءو صدیقین و شہداءو صالحین کا ساتھ نصیب ہوگا۔ جعلنا اللہ منہم آمین یا رب العالمین۔
2203.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہی سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ مجھے حضرت زید بن ثابت ؓ نے بتایا کہ اس کےبعد ر سول اللہ ﷺ نے درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کو تازہ یا خشک کھجور کے عوض فروخت کرنے کی اجازت بیع عرایا کی صورت میں دی ہے۔ اسکے علاوہ کسی اور صورت میں اجازت نہیں دی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2120
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2184
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2184
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2184
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی متصل سند سے (حدیث:2207) بیان کی ہے۔
انس ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺنے مزابنہ اور محاقلہ سے منع فرمایا ہے۔ تشریح : اس کو خود امام بخاری نے آگے چل کر وصل کیا ہے، مزابنہ کے معنی تو معلوم ہو چکے۔ محاقلہ یہ ہے کہ ابھی گیہوں کھیت میں ہو، بالیوں میں اس کا اندازہ کرکے اس کو اترے ہوئے گیہوں کے بدلے میں بیچے۔ یہ بھی منع ہے۔ محاقلہ کی تفسیر میں امام شوکانی فرماتے ہیں۔ قد اختلف فی تفسیرہا فمنم من فسرہا فی الحدیث فقال ہی بیع الحقل بکیل من الطعام و قال ابوعبید ہی بیع الطعام فی سنبلہ و الحقل الحرث و موضع الزرع۔ یعنی محاقلہ کی تفسیرمیں اختلاف کیا گیا ہے۔ بعض لوگوں نے اس کی تفسیر اس کھیت سے کی ہے جس کی کھڑی کھیتی کو اندازاً مقررہ مقدار کے غلہ سے بیچ دیا جائے۔ ابوعبید نے کہا وہ غلہ کو اس کی بالیوں میں بیچنا ہے اور حقل کا معنی کھیتی اور مقام زراعت کے ہیں۔ یہ بیع محاقلہ ہے جسے شرع محمدی میں منع قرار دیا گیا۔ کیوں کہ اس میں جانبین کو نفع و نقصان کا احتمال قوی ہے۔ مزابنہ کی تفسیر میں حضرت امام مذکور فرماتے ہیں : والمزابنۃ بالزای و الموحدۃ و النون قال فی الفتح ہی مفاعلۃ من الزبن بفتح الزای و سکون الموحدۃ وہو الدفع الشدید و منہ سمیت الحرب الزبون لشدۃ الدفع فیہا و قیل للبیع المخصوص مزابنۃ کان کل واحد من المتبایعین یدفع صاحبہ عن حقہ او لان احدہما اذا وقف مافیہ من الغبن اراد دفع البیع یفسخہ و اراد الاخر دفعہ عن ہذہ الارادۃ بامضاءالبیع و قد فسرت بما فی الحدیث اعنی بیع النخل باوساق من التمر و فسرت بہذا و بیع العنب بالزبیب کما فی الصحیحین الخ ( نیل ) مزابنہ زبن سے مفاعلہ کا مصدر ہے۔ جس کا معنی رفع شدید کے ہیں، اسی لیے لڑائی کا نام بھی زبون رکھا گیا کیوں کہ اس میں شدت سے مدافعت کی جاتی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیع مخصوص کا نام مزابنہ ہے۔ گویا دینے والا اور لینے والا دونوں میں سے ہر شخص ایک دوسرے کو اس کے حق سے محروم رکھنے کی شدت سے کوشش کرتا ہے یا یہ معنی کہ ان دونوں میں سے جب ایک اس سودے میں غبن سے واقف ہوتا ہے تو وہ اس بیع کو فسخ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور دوسرا بیع کا نفاذ کرکے اسے اس ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور حدیث کی بھی تفسیر کر چکا ہوں۔ یعنی تر کھجور کو خشک کھجور سے بیچنا اور انگوروں کو منقیٰ سے بیچنا جیسا کہ صحیحین میں ہے۔ عہد جاہلیت میں بیوع کے یہ جملہ مذموم طریقے جاری تھے۔ اور ان میں نفع و نقصان ہر دو کا قوی احتمال ہوتا تھا۔ بعض دفعہ لینے والے کے وارے نیارے ہو جاتے اور بعض دفعہ وہ اصل پونچی کو بھی گنوا بیٹھتا۔ اسلام نے ان جملہ طریقہ ہائے بیوع کو سختی سے منع فرمایا۔ آج کل ایسے دھوکہ کے طریقوں کی جگہ لاٹری، سٹہ، ریس وغیرہ نے لے لی ہے۔ جو اسلامی احکام کی روشنی میں نہ صرف ناجائز بلکہ سود بیاج کے دائرہ میں داخل ہیں۔ خرید و فروخت میں دھوکہ کرنے والے کے حق میں سخت ترین وعیدیں آئی ہیں۔ مثلاً ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا من غشنا فلیس منا جو دھوکہ بازی کرنے ولا ہے وہ ہماری امت سے خارج ہے وغیرہ وغیرہ۔ سچے مسلمان تاجر کا فرض ہے کہ امانت، دیانت، صداقت کے ساتھ کاروبار کرے، اس سے اس کو ہر قسم کی برکتیں حاصل ہوں گی اور آخرت میں انبیاءو صدیقین و شہداءو صالحین کا ساتھ نصیب ہوگا۔ جعلنا اللہ منہم آمین یا رب العالمین۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہی سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ مجھے حضرت زید بن ثابت ؓ نے بتایا کہ اس کےبعد ر سول اللہ ﷺ نے درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کو تازہ یا خشک کھجور کے عوض فروخت کرنے کی اجازت بیع عرایا کی صورت میں دی ہے۔ اسکے علاوہ کسی اور صورت میں اجازت نہیں دی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حضرت انس ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے مزابنہ اور محاقلہ کی بیع سے منع فرمایا ہے
حدیث ترجمہ:
سالم نے بیان کیا کہ مجھے عبداللہ ؓ نے خبر دی، اور انہیں زید بن ثابت ؓ نے کہ بعد میں رسو ل اللہ ﷺ نے بیع عریہ کی تر یا خشک کھجور کے بدلہ میں اجازت دے دی تھی لیکن اس کے سوا کسی صورت کی اجازت نہیں دی تھی۔
حدیث حاشیہ:
اسی طرح تر کھجور خشک کھجور کے بدل برابر برابر بیچنا ناجائز ہے کیوں کہ تر کھجور سوکھے سے وزن میں کم ہو جاتی ہے، جمہور علماءکا یہی قول ہے۔ امام ابوحنیفہ ؒ نے اسے جائز رکھا ہے۔ عرایا عریہ کی جمع ہے۔ حنفیہ نے برخلاف جمہور علماءکے عرایا کو بھی جائز نہیں رکھا کیوں کہ وہ بھی مزابنہ میں داخل ہے اور ہم کہتے ہیں کہ جہاں مزابنہ کی ممانعت آئی ہے وہیں یہ مذکور ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عرایا کی اجازت دے دی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
" Narrated Salim and 'Abdullah from Zaid bin Habit' "Later on Allah's Apostle (ﷺ) permitted the selling of ripe fruits on trees for fresh dates or dried dates in Bai'-l-'Araya, and did not allow it for any other kind of sale."