تشریح:
(1) اس حدیث میں بھی درخت پر لگے ہوئے کچے پھلوں کی خریدوفروخت کے متعلق وضاحت ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ کوئی بھی ایسا پہلو جس میں خریدنے یا بیچنے والے کے لیے نقصان کا اندیشہ ہے، شریعت کی نظر میں ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔ حضرت انس ؓ نے وضاحت فرمائی ہے کہ پھل جب سرخ یا ذرد ہوجائے یا کسی حد تک کھانے کے قابل ہوجائے تو اسے فروخت کرنا جائز ہے، اس کے بعد نفع یا نقصان قسمت کا معاملہ ہے۔ (2) حدیث کے آخری جملے کا مطلب بھی واضح ہے کہ تم نے کچا باغ اپنے بھائی کو فروخت کردیا اور طے شدہ رقم وصول کرلی بعد میں باغ پھل نہ لایایا آفت زدہ ہوگیا تو آپ نے جو رقم وصول کی ہے وہ کس طرح اپنے لیے حلال خیال کرو گے؟ (3) اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے ہاں دوتین سال تک باغات کے جو ٹھیکے ہوتے ہیں شرعاً یہ جائز نہیں۔