تشریح:
(1) آج کل ہمارے ہاں کسی کارخانے یا فرم کا مال ایجنٹ بن کر فروخت کیا جاتا ہے، بڑے بڑے کاروبار اسی طرز پر چلتے ہیں۔ طے شدہ کمیشن پر ایسا کرنا جائز ہے۔صارفین کےلیے اس میں آسانی ہے۔ اگر کسی نے جائیداد خریدنی یا فروخت کرنی ہو تو اسے ڈیلر حضرات کے ذریعے سے فروخت کیا یا خریدا جاسکتا ہے، ان کا کمیشن فیصد کے حساب سے طے ہوتا ہے۔ ڈیلر حضرات کےلیے ضروری ہے کہ وہ جھوٹ اور فریب سے کام نہ لیں اور دیانت داری کے ساتھ اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ (2) اس حدیث میں دیہات سے مال لانے والوں کو آگے بڑھ کر ملنے اور ان سے معاملہ طے کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اس کا دلال نہ بنے۔ یہ حکم امتناعی اس صورت میں ہے کہ شہری آدمی دیہات سے مال لانے والے کو بازار کے نرخ سے بے خبر رکھے۔ ایسا کرنے سے بازار والوں کے لیے بھی نقصان کا پہلو پیدا ہوتا ہے۔ اگر بازار کے ریٹ پر، دوسرے خریداروں پر اور بازار والوں پر ایسا کرنے سے کوئی غلط اثر یا دباؤ نہیں پڑتا تو اس طریقے سے کسی دوسرے کاایجنٹ بن کر مال خریدا جاسکتا ہے اور اسے فروخت بھی کیا جاسکتا ہے، دونوں طرف سے کمیشن وصول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (3) چیز فروخت کرنے کے بعد ایجنٹ حضرات سبزی یا پھلوں سے اپنی پسند کی سبزی یا پھل لے لیتے ہیں، ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ وہ صرف طے شدہ کمیشن کے حق دار ہیں جو انھوں نے وصول کرلیا ہے۔