قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الإِجَارَةِ (بَابُ أَجْرِ السَّمْسَرَةِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَلَمْ يَرَ ابْنُ سِيرِينَ، وَعَطَاءٌ، وَإِبْرَاهِيمُ، وَالحَسَنُ بِأَجْرِ السِّمْسَارِ بَأْسًا وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لاَ بَأْسَ أَنْ يَقُولَ: بِعْ هَذَا الثَّوْبَ، فَمَا زَادَ عَلَى كَذَا وَكَذَا، فَهُوَ لَكَ وَقَالَ ابْنُ سِيرِينَ: إِذَا قَالَ: بِعْهُ بِكَذَا، فَمَا كَانَ مِنْ رِبْحٍ فَهُوَ لَكَ، أَوْ بَيْنِي وَبَيْنَكَ، فَلاَ بَأْسَ بِهِ وَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «المُسْلِمُونَ عِنْدَ شُرُوطِهِمْ»

2274. حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُتَلَقَّى الرُّكْبَانُ وَلَا يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ قُلْتُ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ مَا قَوْلُهُ لَا يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ قَالَ لَا يَكُونُ لَهُ سِمْسَارًا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور ابن سیرین اور عطاءاور ابراہیم اور حسن بصری  دلالی پر اجرت لینے میں کوئی برائی نہیں خیال کرتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اگر کسی سے کہا جائے کہ یہ کپڑا اتنی قیمت میں بیچ لا۔ جتنا زیادہ ہو وہ تمہارا ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ابن سیرین نے فرمایا کہ اگر کسی نے کہا کہ اتنے میں بیچ لا، جتنا نفع ہوگا وہ تمہار ہے یا ( یہ کہا کہ ) میرے اور تمہارے درمیان تقسیم ہوجائے گا۔ تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان اپنی طے کردہ شرائط پر قائم رہیں گے۔ تشریح : ابن سیرین اور ابراہیم کے قول کو ابن ابی شیبہ نے اور عطاءکے قول کو بھی ابن ابی شیبہ نے وصل کیا اور حسن کے قول کو نہ حافظ نے بیان کیا نہ قسطلانی نے کہ کس نے وصل کیا۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کو بھی ابن ابی شیبہ نے وصل کیا عطا سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، جمہور علماءنے اس کو جائز نہیں رکھا۔ کیوں کہ اس میں دلالی کی اجرت مجہول ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کو اس وجہ سے جائز رکھا ہے کہ یہ ایک مضاربت کی صورت ہے۔ ابن سیرین کے اس دوسرے قول کو بھی ابن ابی شیبہ نے وصل کیا ہے فرمان رسالت المسلمون عند شروطہم کو اسحاق نے اپنی مسند میں عمرو بن عوف مزنی سے مرفوعاً روایت کیا ہے اور ابوداؤد اور احمد اور حاکم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے۔ ( وحیدی ) سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام آیا تو ایک تاریخ سامنے آگئی۔ اس لیے کہ حرم نبوی مدینہ طیبہ میں اصحاب صفہ کے چبوترے پر بیٹھ کر یہ چند حروف لکھ رہا ہوں۔ یہی وہ چبوترہ ہے جہاں اصحاب صفہ بھوکے پیاسے علوم رسالت حاصل کرنے کے لیے پروانہ وار قیام فرمایا کرتے تھے۔ اسی چبوترہ کی تعلیم و تربیت سے حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم جیسے فاضل اسلام پیدا ہوئے۔ اللہ پاک ان سب کو ہماری طرف سے بے شمار جزائیں عطا کرے۔ ان کی قبرو ںکو نور سے بھر دے۔ وہی اصحاب صفہ کا چبوترہ ہے جہاں آج شاہانہ ٹھاٹ باٹ ہے۔ غالیچوں پر غالیچے بچھے ہوئے ہیں، ہر وقت عطر سے فضا معطر رہتی ہے۔ کتنے ہی بندگان خدا اس چبوترہ پر تلاوت قرآن مجید میں مشغول رہتے ہیں۔ الحمد للہ میں ناچیز عاجز گنہگار اس چبوترہ میں بیٹھ کر بخاری شریف کا متن پڑھ رہا ہوں اور ترجمہ و تشریحات لکھ رہا ہوں۔ اس امید پر کہ قیامت کے دن اللہ پاک میرا حشر بھی اپنے ان نیک بندوں کے ساتھ کرے اور ان کے جوار میں فردوس بریں میں جگہ دے۔ مجھ کو میری آل اولاد کواورجملہ معاونین اشاعت بخاری شریف کو اللہ پاک یہ درجات نصیب فرمائے اورلواءالحمد کے نیچے حشر فرمائے۔ آج 2 صفر 1390ھ کو حرم نبوی میں اصحاب صفہ کے چبوترہ پر یہ چند لفظ لکھے گئے۔

2274.

حضرت ابن عباس  ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے اس امر سے منع فرمایا ہے کہ بازار میں مال تجارت لانے والوں سے آگے بڑھ کر معاملہ طے کیا جائے۔ اور فرمایا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال نہ فروخت کرے۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس  ؓ سے دریافت کیا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کامال فروخت نہ کرے اس کا کیا مطلب ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ اس کا دلال نہ بنے۔