تشریح:
دور جاہلیت میں عقد حلف کسی دشمن سے لڑنے اور اس پر حملہ کرنے کے لیے کیا جاتا تھا۔ اسلام میں اس طرح کے عہدوپیمان کی کوئی گنجائش نہیں جیسا کہ صحیح مسلم میں اس کو حضرت جبیر بن مطعم ؓ نے بیان کیا ہے۔(صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث:6465(2530)) چونکہ راوی نے عقد حلف کی ممانعت کا موقع ومحل متعین نہیں کیا تھا،اس طرح ہر قسم کا حتمی معاہدہ غلط قرار پاتا تھا، اس لیے حضرت انس ؓ نے وضاحت فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان باہمی تعاون کا معاہدہ ہمارے گھر کرایا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاہدہ نیک مقاصد اور نصرت حق کے لیے اب بھی ہوسکتا ہے۔ البتہ جاہلیت کے اطوار کہ تیراخون ہمارا خون، جس سے تم لڑو گے اس سے ہم لڑیں گے وغیرہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ اس میں حق اور ناحق کی تمیز نہیں ہوتی تھی بلکہ ان کے ہاں معاہدات کی بنیاد قبائلی عصیبت پر ہوتی تھی۔ والله أعلم.