قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الوَكَالَةِ (بَابُ إِذَا وَكَّلَ رَجُلٌ رَجُلًا أَنْ يُعْطِيَ شَيْئًا، وَلَمْ يُبَيِّنْ كَمْ يُعْطِي، فَأَعْطَى عَلَى مَا يَتَعَارَفُهُ النَّاسُ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

2309. حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ وَغَيْرِهِ يَزِيدُ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَلَمْ يُبَلِّغْهُ كُلُّهُمْ رَجُلٌ وَاحِدٌ مِنْهُمْ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَكُنْتُ عَلَى جَمَلٍ ثَفَالٍ إِنَّمَا هُوَ فِي آخِرِ الْقَوْمِ فَمَرَّ بِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَنْ هَذَا قُلْتُ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ مَا لَكَ قُلْتُ إِنِّي عَلَى جَمَلٍ ثَفَالٍ قَالَ أَمَعَكَ قَضِيبٌ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ أَعْطِنِيهِ فَأَعْطَيْتُهُ فَضَرَبَهُ فَزَجَرَهُ فَكَانَ مِنْ ذَلِكَ الْمَكَانِ مِنْ أَوَّلِ الْقَوْمِ قَالَ بِعْنِيهِ فَقُلْتُ بَلْ هُوَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ بَلْ بِعْنِيهِ قَدْ أَخَذْتُهُ بِأَرْبَعَةِ دَنَانِيرَ وَلَكَ ظَهْرُهُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْ الْمَدِينَةِ أَخَذْتُ أَرْتَحِلُ قَالَ أَيْنَ تُرِيدُ قُلْتُ تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً قَدْ خَلَا مِنْهَا قَالَ فَهَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ قُلْتُ إِنَّ أَبِي تُوُفِّيَ وَتَرَكَ بَنَاتٍ فَأَرَدْتُ أَنْ أَنْكِحَ امْرَأَةً قَدْ جَرَّبَتْ خَلَا مِنْهَا قَالَ فَذَلِكَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ قَالَ يَا بِلَالُ اقْضِهِ وَزِدْهُ فَأَعْطَاهُ أَرْبَعَةَ دَنَانِيرَ وَزَادَهُ قِيرَاطًا قَالَ جَابِرٌ لَا تُفَارِقُنِي زِيَادَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَكُنْ الْقِيرَاطُ يُفَارِقُ جِرَابَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ

مترجم:

2309.

حضرت جابر بن عبد اللہ  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں ایک سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا۔ چونکہ میں ایک سست رفتاراونٹ پر سوار تھا جو سب لوگوں سے بالکل پیچھے تھا اس لیے نبی ﷺ میرے پاس سے گزرے تو فرمایا: ’’یہ کون ہے:‘‘ میں نے عرض کیا: جابر بن عبد اللہ  ؓ ہوں۔ آپ نے پوچھا: ’’ کیا ماجرا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: میں ایک سست رفتار اونٹ پر سوارہوں۔ آپ نے پوچھا : ’’تمھارے پاس کوئی چھڑی ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’وہ مجھے دو۔‘‘ میں نے آپ کو چھڑی دی تو آپ نے اونٹ کو رسید کی اور ڈانٹا۔ اب وہ تمام لوگوں سے آگے پہنچ گیا۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ اونٹ مجھے بیچ دو۔‘‘ میں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !یہ آپ ہی کا ہوا۔ آپ نے فرمایا: ’’نہیں بلکہ اسے میرے ہاتھ بیچ دو میں نے اسےچار دینار میں خرید لیا، نیز تمھیں اجازت ہوگی کہ مدینہ طیبہ تک تم اس پر سوار ہو کر جاؤ۔‘‘ جب ہم مدینہ طیبہ کے قریب آئے تو میں نے الگ راہ لی۔ آپ نے فرمایا: ’’ کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘ عرض کیا: میں نے ایک بیوہ سے شادی کی ہے جس کا شوہر فوت ہوگیا تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’ کسی نو خیز سےشادی کیوں نہیں کی، وہ تمھاری خوش طبعی کا ذریعہ ہوتی اور تم اسے خوش کرتے ؟‘‘ میں نے عرض کیا: میرا باپ فوت ہوگیا ہے پس ماندگاں میں چند بیٹیاں ہیں، میں نے چاہا کہ ایسی عورت سے شادی کروں جس کا شوہر فوت ہوگیا ہو اور وہ خود تجربہ کار ہو۔ آپ نے فرمایا: ’’یہی چاہیے تھا۔‘‘ جب ہم مدینہ طیبہ پہنچے تو آپ نے حضرت بلال ؓ سے فرمایا: ’’اے بلال! ان (جابر) کو پیسے دواور کچھ زیادہ دو۔‘‘ حضرت بلال  ؓ نے چاردینار دیے اور ایک قیراط زیادہ دیا۔ حضرت جابر بن عبداللہ  ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا زیادہ عنایت کردہ قیراط ہمیشہ میرے پاس رہتا تھا، چنانچہ وہ اس قیراط کو اپنے بٹوے میں ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے۔