تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو صاف طور پر نہیں بتایا تھا کہ اتنا زیادہ دے مگر حضرت بلال ؓ نے اپنی رائے سے زمانے کے دستور کے مطابق ایک قیراط زائد سونا دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ لوگوں کے درمیان متعارف چیز کی حیثیت منصوص علیہ کی سی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی کسی کو صدقہ دینے کا حکم دے تو وہ اگر لوگوں کے تعارف اور دستور کے مطابق دے تو جائز ہے اگر دستور سے زیادہ دے گا تو وہ مالک کی رضامندی پر موقوف ہے۔ اگر وہ راضی ہوگیا تو درست ہے بصورت دیگر زائد مقدار واپس لینے کا مجاز ہوگا۔ (2) حضرت جابر ؓ کے عمل سے ثابت ہوا کہ کوئی اپنے بزرگ کے عطیہ یا کسی حقیقی یاد گار کو تاریخی طور پر اپنے پاس محفوظ رکھے تو جائز ہے۔ والله أعلم.