تشریح:
(1) زمین کو کئی طرح سے آباد کیا جا سکتا ہے، مثلاً: اسے کھیتی باڑی کے لیے تیار کیا یا وہاں باغ لگایا، اسی طرح اس زمین کو کسی فیکٹری یا کارخانے کے لیے استعمال کیا یا وہاں مکانات تعمیر کر لیے، نیز مویشیوں کی چراگاہیں بھی اس کی آبادی میں شامل ہیں۔ (2) دور حاضر میں زمین کے مالک زمیندار ہیں یا حکومت، اسے آباد کرنے سے پہلے حکومت سے اجازت لینا ہوگی، اس کے بعد اگر اسے آباد کر لیا جائے تو وہ اس زمین کا زیادہ حق دار ہے۔ حکومت کی اجازت کے بغیر یہ اقدام کرنا افراتفری کا باعث ہو سکتا ہے، نیز محض قبضہ کرنے سے حق ملکیت ثابت نہیں ہو گا۔ روایت میں حضرت عمر ؓ کے فیصلے کا بھی ذکر ہے، حضرت عمر ؓ نے اعلان کرایا تھا کہ جس شخص نے تین سال تک زمین کو معطل رکھا اور اسے آباد نہ کیا، اس کے بعد کسی اور نے آباد کر لیا تو وہ اس کی ملکیت ہو گی، اس بنا پر اگر کوئی آدمی بنجر زمین تین سال تک روکے رکھے اور اسے آباد نہ کرے تو حکومت اس سے واپس لے کر کسی دوسرے کو دے سکتی ہے، جو اسے آباد کرے۔ زمین پر قبضہ کر لینا اسے آباد کرنا نہیں ہے۔ (3) اس سلسلے میں ایک فیصلہ درج ذیل ہے جو حضرت عمر ؓ نے کیا تھا۔ بصری میں رہنے والا ابو عبداللہ نامی ایک شخص سیدنا عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے بتایا کہ بصرہ میں ایک ایسی زمین خالی پڑی ہے جس سے کسی مسلمان کو نقصان نہیں اور نہ وہ خراجی ہی ہے، اگر آپ مجھے الاٹ کر دیں تو وہاں بانس اور زیتون کاشت کر کے اسے آباد کر لوں۔ آپ نے بصرہ کے گورنر حضرت ابو موسیٰ ؓ کو لکھا کہ وہاں جا کر زمین کا معائنہ کریں اگر واقعہ یہی ہے تو وہ زمین اسے الاٹ کر دیں۔ (فتح الباري:26/9) (4) اس واقعہ سے بھی معلوم ہوا کہ فالتو اور بنجر زمینوں کو آباد کرنے کے لیے حکومت وقت کی اجازت ضروری ہے۔