Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: Al-Haya (self-respect, modesty bashfulness, honour etc.) is a part of faith)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
24.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ ایک انصاری مرد کے پاس سے گزرے جبکہ وہ اپنے بھائی کو سمجھا رہا تھا کہ تو اتنی شرم کیوں کرتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’اسے (اس کے حال پر) چھوڑ دے کیونکہ شرم تو ایمان کا حصہ ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ انسانی اخلاق وعادات میں حیا کا مقام بہت بلند ہے۔ یہ وہ خصلت ہے جو انسان کو بہت سے جرائم سے باز رکھتی ہے۔ حیا صرف لوگوں ہی سے نہیں بلکہ سب سے زیادہ حیا تو اللہ تعالیٰ سے ہونی چاہیے۔ اس بنا پر سب سے بڑا بے حیا بد بخت انسان ہے جو گناہ کرتے وقت اللہ سے نہیں شرماتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایمان اور حیا کے درمیان بہت گہرا رشتہ ہے۔ 2۔ حیا اس تأثر کا نام ہے جو کسی برے کام کے خیال سے انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کی تعریف یہ ہے کہ جو خصلت انسان کو بھلائی پر آمادہ کرے اوربرائی سے روکے وہ حیا ہے۔ اس میں ایک طرح بزدلی اور عفت دونوں ہوتی ہیں اور اپنا اپنا کام کرتی ہیں۔ بزدلی برائیوں سے روکتی ہے اور عفت اسے نیک کاموں کی طرف لاتی ہے۔ اس وضاحت سے پتہ چلاکہ جو لوگ شرعی امور میں حیا سے کام لیتے ہیں اس کا نام حیا رکھنا غلط ہے بلکہ یہ ان کی طبیعت کی کمزوری ہے جسے حیا کا نام دے کر چھپانا درست نہیں۔ یہ ایسا جُبْن (بزدلی) ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پناہ مانگا کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، الدعوات، حدیث: 6365) حیا اور جبن میں بہت بڑا فرق ہے۔ 3۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حیا ایک ناپسندیدہ اور مکروہ خصلت ہے جیسا کہ حضرت اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک مسئلہ دریافت کرتے وقت کہا کہ اللہ حق سے نہیں شرماتا ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اخلاق فاضلہ کو اگر اپنے محل میں نہ رکھا جائے تو ان میں قباحت آجاتی ہے۔ حضرت اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کہنےکا مطلب یہ ہے کہ مسائل ضرور یہ میں حیا سے کام نہیں لینا چاہیے حیا تو ہر لحاظ سے خیر ہی ہے بشرطیکہ اسے اپنے محل میں استعمال کیا جائے۔اگر اسے اپنے محل کے علاوہ استعمال کیا جائے گا۔تو یہ مکروہ اور ناپسندیدہ ہے۔4۔حیا کا ذکر پہلے بھی آیا تھا لیکن ضمنی طورپرتھا اس مقام پر حیا کی اہمیت کو مستقل بیان کیا گیا۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد مرجیہ کی تردید ہے۔ یعنی ایمان کے لیے اعمال واخلاق کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ایمان کمزور رہے گا۔اس حدیث سے ایمان میں حیا کی مطلوبیت ثابت ہوتی ہے۔اسی طرح ترک حیا سے ایمان میں نقص ہوگا لہذا معلوم ہوا کہ اعمال و اخلاق ایمان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
24
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
24
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
24
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
24
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ ایک انصاری مرد کے پاس سے گزرے جبکہ وہ اپنے بھائی کو سمجھا رہا تھا کہ تو اتنی شرم کیوں کرتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’اسے (اس کے حال پر) چھوڑ دے کیونکہ شرم تو ایمان کا حصہ ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ انسانی اخلاق وعادات میں حیا کا مقام بہت بلند ہے۔ یہ وہ خصلت ہے جو انسان کو بہت سے جرائم سے باز رکھتی ہے۔ حیا صرف لوگوں ہی سے نہیں بلکہ سب سے زیادہ حیا تو اللہ تعالیٰ سے ہونی چاہیے۔ اس بنا پر سب سے بڑا بے حیا بد بخت انسان ہے جو گناہ کرتے وقت اللہ سے نہیں شرماتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایمان اور حیا کے درمیان بہت گہرا رشتہ ہے۔ 2۔ حیا اس تأثر کا نام ہے جو کسی برے کام کے خیال سے انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کی تعریف یہ ہے کہ جو خصلت انسان کو بھلائی پر آمادہ کرے اوربرائی سے روکے وہ حیا ہے۔ اس میں ایک طرح بزدلی اور عفت دونوں ہوتی ہیں اور اپنا اپنا کام کرتی ہیں۔ بزدلی برائیوں سے روکتی ہے اور عفت اسے نیک کاموں کی طرف لاتی ہے۔ اس وضاحت سے پتہ چلاکہ جو لوگ شرعی امور میں حیا سے کام لیتے ہیں اس کا نام حیا رکھنا غلط ہے بلکہ یہ ان کی طبیعت کی کمزوری ہے جسے حیا کا نام دے کر چھپانا درست نہیں۔ یہ ایسا جُبْن (بزدلی) ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پناہ مانگا کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، الدعوات، حدیث: 6365) حیا اور جبن میں بہت بڑا فرق ہے۔ 3۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حیا ایک ناپسندیدہ اور مکروہ خصلت ہے جیسا کہ حضرت اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک مسئلہ دریافت کرتے وقت کہا کہ اللہ حق سے نہیں شرماتا ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اخلاق فاضلہ کو اگر اپنے محل میں نہ رکھا جائے تو ان میں قباحت آجاتی ہے۔ حضرت اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کہنےکا مطلب یہ ہے کہ مسائل ضرور یہ میں حیا سے کام نہیں لینا چاہیے حیا تو ہر لحاظ سے خیر ہی ہے بشرطیکہ اسے اپنے محل میں استعمال کیا جائے۔اگر اسے اپنے محل کے علاوہ استعمال کیا جائے گا۔تو یہ مکروہ اور ناپسندیدہ ہے۔4۔حیا کا ذکر پہلے بھی آیا تھا لیکن ضمنی طورپرتھا اس مقام پر حیا کی اہمیت کو مستقل بیان کیا گیا۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد مرجیہ کی تردید ہے۔ یعنی ایمان کے لیے اعمال واخلاق کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ایمان کمزور رہے گا۔اس حدیث سے ایمان میں حیا کی مطلوبیت ثابت ہوتی ہے۔اسی طرح ترک حیا سے ایمان میں نقص ہوگا لہذا معلوم ہوا کہ اعمال و اخلاق ایمان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن یوسف نے ہم سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں مالک بن انس نے ابن شہاب سے خبر دی، وہ سالم بن عبداللہ سے نقل کرتے ہیں، وہ اپنے باپ (عبداللہ بن عمر) سے کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ ایک انصاری شخص کے پاس سے گزرے اس حال میں کہ وہ اپنے ایک بھائی سے کہہ رہے تھے کہ تم اتنی شرم کیوں کرتے ہو۔ آپ ﷺ نے اس انصاری سے فرمایا: ’’اس کو اس کے حال پر رہنے دو کیونکہ حیا بھی ایمان ہی کا ایک حصہ ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
بخاری کتاب الأدب میں یہی روایت ابن شہاب سے آئی ہے۔ اس میں لفظ یعظ کی جگہ یعاتب ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ وہ انصاری اس کو اس بارے میں عتاب کررہے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے انصاری سے فرمایا: ’’اسے اس کی حالت پر رہنے دو۔ حیا ایمان ہی کا حصہ ہے۔‘‘ حیا کی حقیقت یہ ہے کہ انسان برائی کی نسبت اپنے نام کے ساتھ ہونے سے ڈرے۔ حرام امورمیں حیا کرنا واجب ہے اور مکروہات میں بھی حیا کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ «اَلْحَيَاءُ لاَ يَأْتِي إِلَّا بِخَيْرٍ» کا یہی مطلب ہے کہ حیا خیر ہی خیرلاتی ہے۔ بعض سلف کا قول ہے: "خف الله على قدرته علیك واستحي منه علی قدرته قربه منك." ’’اللہ کا خوف پیدا کرو اس اندازہ کے مطابق کہ وہ تمہارے اوپر کتنی زبردست قدرت رکھتا ہے اور اس سے شرم رکھو یہ اندازہ کرتے ہوئے کہ وہ تم سے کس قدر قریب ہے۔‘‘ مقصد یہ ہے کہ اللہ کا خوف پورے طور پر ہو کہ تمہارے اوپر اپنی قدرت کامل رکھتا ہے جب وہ چاہے اور جس طرح چاہے تم کو پکڑے اور اس سے شرم وحیا بھی اس خیال سے ہونی چاہیے کہ وہ تمہاری شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ الغرض حیا اور شرم انسان کا ایک فطری نیک جذبہ ہے جو اسے بے حیائی سے روک دیتا ہے اور اس کے طفیل وہ بہت سے گناہوں کے ارتکاب سے بچ جاتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ حیا سے مراد وہ بے جاشرم نہیں ہے جس کی وجہ سے انسان کی جرات عمل ہی مفقود ہوجائے۔ وہ اپنے ضروری فرائض کی ادائیگی میں بھی شرم وحیا کا بہانہ تلاش کرنے لگے۔ حضرت امام المحدثین اس حدیث کی نقل سے بھی مرجیہ کی تردید کرنا چاہتے ہیں جو ایمان کو صرف قول بلاعمل مانتے ہیں۔ حالانکہ کتاب اللہ وسنت رسول اللہ ﷺمیں جملہ اعمال صالحہ وعادات سیئہ کو ایمان ہی کے اجزا قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ حدیث بالاسے ظاہر ہے کہ حیا شرم جیسی پاکیزہ عادت بھی ایمان میں داخل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah (bin 'Umar (RA)): Once Allah's Apostle (ﷺ) passed by an Ansari (man) who was admonishing to his brother regarding Haya'. On that Allah's Apostle (ﷺ) said, "Leave him as Haya' is a part of faith." (See Hadith No. 8)