تشریح:
1۔ انسانی اخلاق وعادات میں حیا کا مقام بہت بلند ہے۔ یہ وہ خصلت ہے جو انسان کو بہت سے جرائم سے باز رکھتی ہے۔ حیا صرف لوگوں ہی سے نہیں بلکہ سب سے زیادہ حیا تو اللہ تعالیٰ سے ہونی چاہیے۔ اس بنا پر سب سے بڑا بے حیا بد بخت انسان ہے جو گناہ کرتے وقت اللہ سے نہیں شرماتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایمان اور حیا کے درمیان بہت گہرا رشتہ ہے۔
2۔ حیا اس تأثر کا نام ہے جو کسی برے کام کے خیال سے انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کی تعریف یہ ہے کہ جو خصلت انسان کو بھلائی پر آمادہ کرے اوربرائی سے روکے وہ حیا ہے۔ اس میں ایک طرح بزدلی اور عفت دونوں ہوتی ہیں اور اپنا اپنا کام کرتی ہیں۔ بزدلی برائیوں سے روکتی ہے اور عفت اسے نیک کاموں کی طرف لاتی ہے۔ اس وضاحت سے پتہ چلاکہ جو لوگ شرعی امور میں حیا سے کام لیتے ہیں اس کا نام حیا رکھنا غلط ہے بلکہ یہ ان کی طبیعت کی کمزوری ہے جسے حیا کا نام دے کر چھپانا درست نہیں۔ یہ ایسا جُبْن (بزدلی) ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پناہ مانگا کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، الدعوات، حدیث: 6365) حیا اور جبن میں بہت بڑا فرق ہے۔
3۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حیا ایک ناپسندیدہ اور مکروہ خصلت ہے جیسا کہ حضرت اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک مسئلہ دریافت کرتے وقت کہا کہ اللہ حق سے نہیں شرماتا ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اخلاق فاضلہ کو اگر اپنے محل میں نہ رکھا جائے تو ان میں قباحت آجاتی ہے۔ حضرت اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کہنےکا مطلب یہ ہے کہ مسائل ضرور یہ میں حیا سے کام نہیں لینا چاہیے حیا تو ہر لحاظ سے خیر ہی ہے بشرطیکہ اسے اپنے محل میں استعمال کیا جائے۔اگر اسے اپنے محل کے علاوہ استعمال کیا جائے گا۔تو یہ مکروہ اور ناپسندیدہ ہے۔4۔حیا کا ذکر پہلے بھی آیا تھا لیکن ضمنی طورپرتھا اس مقام پر حیا کی اہمیت کو مستقل بیان کیا گیا۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد مرجیہ کی تردید ہے۔ یعنی ایمان کے لیے اعمال واخلاق کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ایمان کمزور رہے گا۔اس حدیث سے ایمان میں حیا کی مطلوبیت ثابت ہوتی ہے۔اسی طرح ترک حیا سے ایمان میں نقص ہوگا لہذا معلوم ہوا کہ اعمال و اخلاق ایمان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔