تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک پر غزوہ احد کے وقت زخم لگا تھا۔ جب پانی ڈالنے سے خون بند نہ ہوا تو ایک پرانا بوریا جلا کر اس کی راکھ زخم میں بھر دی گئی۔ یہ راکھ اپنے اندر یہ خصوصیت رکھتی ہے کہ اس سے خون فوراً بند ہوجاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کا ختنہ کرنے کے بعد اس مقام پر راکھ لگا دی جاتی ہے، لیکن آج کل ترقی یافتہ دور میں جدید سہولیات سے فائدہ اٹھایا جاتاہے۔ ڈاکٹر حضرات سے ختنہ کرانے میں دو فائدے ہیں:* بچے کوتکلیف نہیں ہوتی، کیونکہ وہ ختنے سے پہلے ٹیکہ لگا کرسن کردیتے ہیں۔ * ایسی ادویات استعمال کی جاتی ہیں جن سے زخم جلدی مندمل ہوجاتا ہے۔ 2۔ حضرت سہل ؓ نے فرمایا کہ اس وقت مجھ سے زیادہ جاننے والاکوئی نہیں، کیونکہ یہ واقعہ غزوہ احد کے موقع پر پیش آیا اور جب حضرت سہل نے یہ حدیث بیان کی تو اس وقت اس واقعے پر اسی سال سے زائد عرصہ بیت چکا تھا اورحضرت سہل مدینے میں سب سے آخری وفات پانے والے صحابی ہیں۔ انھوں نے 91 ہجری میں وفات پائی۔ جبکہ ان کی عمر سوسال ہوچکی تھی۔ (فتح الباري:462/1) علامہ ابن بطال نے اس حدیث سے مندرجہ ذیل فوائد کا استخراج کیا ہے:۔ * عورت اپنے باپ اور دیگر محارم کی خدمت اور تیمارداری کے پیش نظر ان کا بدن چھوسکتی ہے۔ * دوا اور علاج کا جواز معلوم ہوا اور ایسا کرنا توکل کے منافی نہیں۔ * علاج معالجے میں دوسروں سے مدد لینے کا جواز ثابت ہوا۔ * بوریا جلاکر اس کی راکھ زخموں پر لگانے کی افادیت معلوم ہوئی۔ * مصائب وآلام میں حضرات انبیاء علیہ السلام کو بھی مبتلا کیا جاتارہا ہے۔ * لوگ اگرکسی چیز سے واقف نہ ہوں تو اہل علم سے استفسار کاحق رکھتے ہیں۔ (شرح ابن بطال:362/1 وعمدة القاري:689/2) 4۔ عنوان میں (عَن وَجهِه) کا اضافہ صرف مطابقت واقعہ کی رعایت سے کیا گیا ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ اپنے دست مبارک سے رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک دھورہی تھیں۔ یہ مطلب نہیں کہ اگر چہرے کے علاوہ بدن کے کسی اور حصے کو ہاتھ لگائے تو اس کا الگ حکم ہوگا۔ اور اس روایت کو کتاب الوضوء میں لانے کی مناسبت یہ ہے کہ وضو لغوی لحاظ سے وضاءة سے مشتق ہے جس کے معنی حسن ونظافت ہیں، لہذا چہرسے سے خون کی آلائش کو دورکرنا اس میں داخل ہوگا، لیکن ارباب :’’تدبر‘‘ نے توامام بخاری ؒ پر طعن کی ہے، چنانچہ اصلاحی صاحب کہتے ہیں:’’ اس میں کسی شرعی حکم کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس باب پرباندھنے کی ضرورت نہ تھی۔‘‘(تدبرحدیث:334/1) لیکن ہمارے نزدیک امام بخاری ؒ کی یہ عظمت ہے کہ ان کے مخالفین بھی چاروناچار ان کی دقت نظر کا اعتراف کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں، چنانچہ اصلاحی صاحب امام بخاری کی باریک بینی بایں الفاظ بیان کرتے ہیں:’’اگرسیدہ فاطمہ ؓ نے نبی کریم ﷺ کا زخم دھویا تو یہ تاریخ کا بڑا اہم واقعہ ہے۔ دنیا کی تمام خواتین کے لیے اورلڑکیوں کے لیے یہ ایک نمونہ ہے۔ اس حوالے سے امام صاحب یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اعضائے وضو پر زخم وغیرہ کی صورت میں وضو میں کسی دوسرے سے مدد لی جاسکتی ہے۔‘‘ ( تدبر حدیث:334/1)