تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے مسواک کو وضو کی سنت ثابت کرنے کے لیے کتاب الوضوء میں مذکورہ عنوان قائم کیا ہے، کیونکہ مسواک متعلقات وضو سے ہے، اسے کتاب الصلاۃ میں بھی لائیں گے تاکہ اس کے سنت صلاۃ ہونے کو بھی واضح کیا جائے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ اگر مجھے لوگوں پرگرانی کا اندیشہ نہ ہوتاتو ہر نماز کے ساتھ مسواک کرنے کو ضروری قراردے دیتا۔ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث:887) اسی طرح وضو کے متعلق بھی ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ اگر مجھے امت پرگرانی کا خطرہ نہ ہوتاتو میں ہروضو کے ساتھ مسواک کو لازم قراردے دیتا۔ (مسند احمد:250/2) مسواک کرتے وقت منہ سے اُع اُع کی آواز کا پیدا ہونا اس بات کا قرینہ ہے کہ مسواک زبان پر پھیری جاتی تھی، کیونکہ جب زبان پر بلغم وغیرہ جم جاتی ہے تو قراءت کے وقت تکلف ہوتا ہے، اس لیے زبان کو صاف کرنے کے لیے مسواک کا عمل رکھاگیا ہے۔
2۔ مسواک کے مستحب اوقات حسب ذیل ہیں:* وضو کے ساتھ ۔* نماز کے وقت۔* تلاوت قرآن کے لیے۔* سونے سے پہلے۔* نیند سے بیدار ہوکر۔* جمعے کے دن* کھانے کے وقت۔* منہ میں کسی وجہ سے بوپیداہونے کی صورت میں۔ واضح رہے کہ منہ میں کئی ایک وجوہات کی بنا پر بو پیدا ہوجاتی ہے. چند ایک حسب ذیل ہیں:* کھانے پینے کاترک۔ * بووالی چیزتناول کرنا۔* مسلسل سکوت۔* کثرت کلام۔ مزید برآں حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ گھرتشریف لاتے تو سب سے پہلے مسواک کرنے کا اہتمام کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث:590(253))
3۔ مسواک کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے رب کبریا کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ منہ کی پاکیزگی اور صفائی کا ذریعہ ہے، اس سے مسوڑھے مضبوط ہوتے ہیں، قوت حافظہ کو بڑھاتی اورترقی دیتی ہے، نظر کوتیز کرتی اور اس کی روشنی کو بڑھاتی ہے، فاضل رطوبتوں کا ازالہ اوراخراج کرتی ہے، معدے کے نظام کو درست رکھتی ہے۔ پابندی سے مسواک کرنے والا درد دنداں سے محفوظ رہتا ہے۔ ان کے علاوہ بے شمار فوائد ہیں جن کا طب جدید نے بھی اعتراف کیا ہے۔
4۔ حضرت حذیفہ ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کونیند سے بیدار ہوتے تو مسواک سے منہ صاف کرتے تھے، یعنی سونے کی وجہ سے جو بخارات معدے سے چڑھ کے زبان پر جم جاتے ہیں، ان سے بھی قراءت متاثر ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے ان کے ازالے کے لیے مسواک کا عمل کرتے تھے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زبان پر طول کے بل مسواک کرنا مشروع ہے جبکہ دانتوں پر عرض کے بل کرنی چاہیے۔ (فتح الباري:463/1)