تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا قائم کردہ عنوان دراصل ایک حدیث کے الفاظ ہیں جسے امام حاکم ؒ نے اپنی مستدرک میں بیان کیا ہے۔ (المستدرك للحاکم:58/2) البتہ امام ترمذی نے اس حدیث کو موقوف قرار دیا ہے۔ (جامع الترمذي، البیوع، حدیث:1254) (2) قرض دینے کے بعد اس کی واپسی یقینی بنانے کے لیے مقروض کی کوئی چیز اپنے پاس رکھنا گروی کہلاتا ہے۔ گروی شدہ چیز سے فائدہ اٹھانے کے متعلق علماء کی مختلف آراء ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ مطلق طور پر گروی شدہ چیز سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ یہ جائز اور مباح ہے۔ ٭ گروی چیز کی بنیاد قرض ہے اور جس نفع کی بنیاد قرض ہو وہ سود ہوتا ہے، لہذا گروی شدہ چیز سے فائدہ اٹھانا سود کی ایک قسم ہے اور ایسا کرنا شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ ٭ حقیقت کے اعتبار سے گروی شدہ چیز چونکہ اصل مالک کی ہے، اس لیے اس کی حفاظت و نگہداشت بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ اگر ایسا کرنا ناممکن یا دشوار ہو یا وہ خود اس ذمہ داری سے دستبردار ہو جائے تو جس کے پاس گروی رکھی ہے وہ بقدر حفاظت اس سے فائدہ اٹھانے کا مجاز ہے۔ ہمارے نزدیک یہ آخری مؤقف زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے، البتہ اس میں کچھ تفصیل ہے کہ اگر گروی شدہ چیز دودھ دینے والا یا سواری کے قابل کوئی جانور ہے تو اس کی حفاظت و نگرانی پر آنے والے اخراجات کے بقدر اس سے فائدہ بھی لیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں اصل مالک کے ذمے اس کی حفاظت کا بوجھ ڈالنا فریقین کے لیے باعث تکلیف ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سواری کا جانور اگر گروی ہے تو اس پر اٹھنے والے اخراجات کی وجہ سے سواری کی جا سکتی ہے اور اگر دودھ دینے والا جانور ہے تو اخراجات کی وجہ سے اس کا دودھ پیا جا سکتا ہے اور جو سواری کرتا ہے یا دودھ پیتا ہے اس کے ذمے اس جانور کی حفاظت و نگہداشت کے اخراجات ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، الرھن، حدیث:2512) واضح رہے کہ سواری کرنے یا دودھ پینے کی منفعت اس پر ہونے والے اخراجات کی وجہ سے ہے اور اس سے مراد اصل مالک نہیں بلکہ وہ آدمی ہے جس کے پاس گروی رکھی گئی ہے، کیونکہ بعض روایات میں اس کی صراحت موجود ہے، (سنن الدارقطني، البیوع، حدیث:2906) نیز اخراجات برداشت کرنے کے بدلے وہی شخص فائدہ لے سکتا ہے جس کے پاس گروی رکھی گئی ہے کیونکہ اصل مالک کا نفع حاصل کرنا تو اخراجات برداشت کرنے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے مالک ہونے کی بنا پر ہوتا ہے۔ مزید برآں یہ فائدہ بھی اپنے استعمال کی حد تک ہے، اس دودھ کو بیچنا یا سواری کے جانور کو کرائے پر دینا درست نہیں۔ بعض حضرات اس حد تک احتیاط کی تلقین کرتے ہیں کہ اخراجات سے زائد فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے، چنانچہ ابراہیم نخعی کہتے ہیں: ’’اگر سواری کا جانور گروی رکھا گیا ہے تو اس پر اخراجات کے بقدر سواری کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح دودھ کے جانور سے چارے کے بہ قدر دودھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘‘ ایک روایت میں ہے: ’’چارے کی قیمت سے زائد دودھ حاصل کرنا سود ہے۔‘‘ (فتح الباري:178/5) لیکن اس قدر باریک حساب کتاب محض تکلف ہے۔ اگر گروی شدہ چیز ایسی ہے کہ اس کی حفاظت و نگرانی پر کچھ خرچ نہیں ہوتا، مثلاً: زیورات یا قیمتی دستاویزات وغیرہ تو ایسی چیز سے فائدہ اٹھانا درست نہیں کیونکہ ایسا کرنا گویا اپنے قرض کے عوض فائدہ اٹھانا ہے جس میں سود کا واضح شائبہ ہے۔ اگر گروی شدہ چیز زمین کی صورت میں ہے تو اس کے متعلق ہمارے برصغیر کے علماء میں اختلاف ہے۔ مولانا محمد حسین بٹالوی ؒ نے بخاری شریف کی مذکورہ حدیث پر قیاس کرتے ہوئے گروی شدہ زمین سے فائدہ اٹھانے کے جواز کا فتویٰ دیا ہے جیسا کہ فتاویٰ ثنائیہ میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ (1/409)۔ فتاویٰ ثنائیہ ہی میں مولانا شرف الدین دہلوی ؒ نے اس کا مفصل جواب دیا ہے کہ دعویٰ عام کے لیے دلیل بھی عام ہی درکار ہوتی ہے۔ پھر یہاں عام یا غیر مخصوص کو منصوص مخصوص پر قیاس کیا گیا ہے اور یہ بھی قاعدہ ہے کہ جو حکم خلاف قیاس ہو وہ مورد نص پر منحصر رہتا ہے کیونکہ اصل اموال میں حرمت قطعی ہے، اس لیے جب تک صحیح دلیل سے حلت کی تصریح نہ ہو قیاس سے اس کی حلت ثابت نہ ہو گی، خصوصاً جو حکم خلاف قیاس ہو اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ فتاویٰ ثنائیہ میں یہ بحث طویل اور لائق مطالعہ ہے۔ سید نذیر حسین محدث دہلوی، مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری، مولانا عبدالرب، مولانا سید عبدالجبار بن عبداللہ غزنوی اور مولانا حافظ عبداللہ روپڑی ؒ عدم جواز کے قائل ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ حدیث بخاری پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل ہے جو مرہونہ چیز سے فائدہ لینے کے قائل ہیں، جبکہ اس کی نگہداشت کی جائے اگرچہ اصل مالک اجازت نہ دے۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ مرتہن کو اٹھنے والے اخراجات کے مقابلے میں صرف سواری کرنے اور دودھ لینے کا حق ہے، اس کے علاوہ اور کسی قسم کا فائدہ نہیں لیا جا سکتا جیسا کہ حدیث کے مفہوم سے متبادر ہے، البتہ جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ جس کے پاس کوئی چیز گروی رکھی ہوئی ہے وہ اس چیز سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ مذکورہ حدیث کے متعلق ان کا یہ موقف ہے کہ اس میں فائدہ اٹھانے کا ذکر ہے اور ایسا کرنا خلاف قیاس ہے، لہذا مورد نص پر منحصر رہے گا، لہذا اس پر مزید قیاس کر کے فائدہ اٹھانے کا دروازہ کھولنا صحیح نہیں۔ خلاف قیاس اس لیے ہے کہ اس میں اصل مالک کی اجازت کے بغیر سواری کرنے اور دودھ لینے کی اجازت دی گئی ہے۔ حدیث میں ہے کہ مالک کی اجازت کے بغیر کسی جانور کا دودھ نہ حاصل کیا جائے۔‘‘ (صحیح البخاري، حدیث:2435) پھر اس میں فائدہ اٹھانے کا حق صرف اخراجات برداشت کرنے کی وجہ سے ہے، قرضے کے عوض فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ (فتح الباري:178/5) اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سید نذیر حسین محدث دہلوی ؒ کا ایک فتویٰ مع سوال درج کر دیا جائے۔٭ سوال یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے زمین رہن رکھی تو مرتہن اس سے نفع اٹھا سکتا ہے یا نہیں؟٭ اس کا جواب ان الفاظ میں دیا گیا ہے کہ شئے مرہون سے اس پر اٹھنے والے اخراجات کی وجہ سے مرتہن نفع اٹھا سکتا ہے، یعنی جب سواری یا دودھ کا کوئی جانور مرہون اور اس کے دانہ اور گھاس وغیرہ کا خرچہ مرتہن کے ذمے ہو تو مرتہن کے لیے جائز ہے کہ اپنے اخراجات کے بقدر جانور مرہون پر سواری کرے اور دودھ پیے اور اسے اپنے اخراجات سے زیادہ نفع اٹھانا جائز نہیں، مثلاً؛ گائے مرہون پر مرتہن کا روزانہ خرچہ دو روپے ہوتا ہے اور گائے روزانہ چار روپے کا دودھ دیتی ہو تو اسے صرف دو روپے کے بقدر دودھ پینا جائز ہے اور باقی دو روپے کا دودھ راہن کا ہے اور مرتہن کے لیے باقی دودھ پینا جائز نہیں۔ اگر اسے پیے گا تو سود میں داخل ہو گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر سواری کا جانور رہن ہو تو اخراجات کے معاوضے میں اس پر سواری کی جائے گی اور دودھ والے جانور کا دودھ خرچے کے معاوضے میں پیا جائے گا اور جو سواری کرے گا اور دودھ پیے گا وہی خرچہ برداشت کرے گا۔‘‘ (صحیح البخاري، الرھن، حدیث:2511) نیز صحیح بخاری میں ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ گم شدہ جانور پر سواری بھی چارے کے عوض کی جائے گی اور دودھ والے جانور کا دودھ بھی چارے کے عوض پیا جائے گا اور رہن کا بھی یہی حکم ہے۔ فتح الباری میں اس کی مزید وضاحت ہے کہ اگر کوئی مرتہن کے پاس دودھ دینے والا جانور رہن رکھے تو مرتہن کو چارے کی قیمت کے برابر دودھ لینا جائز ہو گا اگر زیادہ لے گا تو سود ہو گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ سواری اور دودھ کے جانور کے علاوہ دوسری کسی مرہون چیز کا نفع اٹھانا جائز نہیں کیونکہ اس کا ثبوت نہیں بلکہ اس کی ممانعت ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’گروی شدہ چیز کو راہن سے روکا نہیں جا سکتا۔ اس کے نفع اور نقصان کا مالک گروی رکھنے والا ہے۔‘‘ اسے امام شافعی ؒ نے اپنی مسند اور امام دارقطنی ؒ نے اپنی سنن میں بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند حسن متصل ہے۔ علامہ شوکانی ؒ نیل الاوطار میں لکھتے ہیں کہ شئے مرہون کا نفع و نقصان راہن کا ہے۔ اس میں جمہور کے مذہب کی دلیل ہے۔ امام شافعی، امام ابو حنیفہ، امام مالک اور جمہور علماء نے کہا ہے کہ مرتہن، گروی شدہ چیز سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ ہر قسم کا نفع و نقصان گروی رکھنے والے کا ہے، اس لیے کہ شریعت نے نفع و نقصان کا ذمہ دار گروی رکھنے والے کو ٹھہرایا ہے۔ جب احادیث سے یہ دونوں باتیں ثابت ہیں تو معلوم ہوا کہ زمین مرہونہ سے مرتہن نفع نہیں اٹھا سکتا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ زمین مرہونہ کا قیاس سواری کے جانور پر صحیح نہیں ہے۔ (فتاوی نذیریہ:259/5) واللہ أعلم بالصواب۔ واضح رہے کہ فتویٰ میں مذکورہ حدیث: ’’گروی شدہ چیز کو راہن سے روکا نہیں جا سکتا، اس کے نفع و نقصان کا مالک گروی رکھنے والا ہے۔‘‘ کو امام حاکم نے بیان کیا ہے۔ (المستدرک للحاکم:51/2) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے آخری الفاظ مدرج ہیں جو حضرت سعید بن مسیب ؒ نے بطور تفسیر کہے ہیں، تاہم امام شافعی کی تحقیق ہے کہ آخری الفاظ بھی رسول اللہ ﷺ کے ہیں۔ امام شافعی ؒ کے نزدیک اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی دوسرے کے پاس کوئی چیز گروی رکھی ہے تو اسے اس چیز سے فائدہ لینے کا پورا پورا حق ہے، گروی قبول کرنے والے کو اس میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ اگر وہ قرض دار یا قرض خواہ سے ہلاک ہو جائے تو اس سے قرض خواہ کا حق ساقط نہیں ہو گا کیونکہ یہ نقصان مقروض کا ہوا ہے جس نے اپنی کوئی چیز قرض وصول کرنے والے کے پاس بطور گروی رکھی تھی، لیکن بعض دوسرے فقہاء اس حدیث کا مفہوم بایں الفاظ بیان کرتے ہیں کہ اگر وقت مقررہ تک مقروض اپنے ذمے سے قرض ادا نہ کر سکے تو مرتہن کو گروی شدہ چیز ضبط کرنے کا حق نہیں بلکہ اسے قرض کی ادائیگی کے لیے فروخت کیا جائے گا۔ اگر اس کی قیمت قرض کی رقم سے زیادہ ہے تو اس کا فائدہ گروی رکھنے والے کو ہو گا، یعنی زائد رقم مقروض کو واپس کر دی جائے گی۔ اور اگر اس کی قیمت قرض سے کم ہے تو مقروض کے ذمے ہے کہ وہ اس کی تلافی کرے۔ قرائن سے دوسرا مفہوم ہی درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ قرآن کریم کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ قرض کی ادائیگی تک گروی شدہ چیز پر قرض خواہ کا قبضہ تسلیم کیا گیا ہے۔ اگرچہ حق ملکیت تو مقروض کا ہے، لیکن حق وثیقہ قرض خواہ کا تسلیم شدہ ہے، مقروض کو اپنی چیز سے انتفاع کا حق دینا اس کے قبضے کے منافی نہیں ہے جو قرآن کریم نے اسے دیا ہے، پھر یہ تفسیر ابراہیم نخعی، حضرت طاؤس، سفیان ثوری اور امام زہری سے منقول ہے۔مولانا عبداللہ بن عبدالجبار غزنوی اپنے فتویٰ میں لکھتے ہیں کہ ہمارے نزدیک زمین کا اصل مالک قرض لینے والا ہے۔ اس لیے اس کا حق ہے کہ وہ اسے خود کاشت کر کے اس سے نفع حاصل کرے، البتہ قرض کی واپسی یقینی بنانے کے لیے اپنی زمین سے متعلق کاغذات رجسٹری اور دیگر دستاویزی ثبوت دائن اپنے پاس رکھے۔ اگر کسی وجہ سے ایسا ناممکن ہو تو جس کے پاس زمین گروی رکھی گئی ہے، وہ خود اسے کاشت کرے اور اس پر اٹھنے والے اخراجات منہا کر کے نفع وغیرہ دو حصوں میں تقسیم کر لیا جائے۔ ایک حصہ اپنی محنت کے عوض خود رکھ لے اور دوسرا حصہ زمین کے اصل مالک کو دے دیا جائے یا حصہ دینے کے بجائے اس کے قرض سے اتنی رقم منہا کر دے یا رائج الوقت اس زمین کا جتنا ٹھیکہ ہو سالانہ شرح کے حساب سے اس کے قرض سے منہا کر دیا جائے، اس طرح قرض کی رقم جب پوری ہو جائے گی تو زمین اصل مالک کو واپس کر دی جائے۔ اس سلسلے میں رائج الوقت مندرجہ ذیل دو صورتیں بالکل ناجائز اور حرام ہیں: ٭ جس کے پاس زمین گروی رکھی جائے وہ اسے خود کاشت کرے اور اس کی پیداوار خود ہی استعمال کرتا رہے، اصل مالک کو بالکل نظر انداز کر دیا جائے۔ ٭ اگر وقت مقررہ پر قرض وصول نہ ہو تو گروی شدہ زمین بحق قرض ضبط کر لی جائے۔ یہ دونوں صورتیں ظلم اور زیادتی کا باعث ہیں، لہذا ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ واللہ أعلم