قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: کِتَابُ المُكَاتِبِ (بَابُ المُكَاتِبِ، وَنُجُومِهِ فِي كُلِّ سَنَةٍ نَجْمٌ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِهِ: {وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ، فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا، وَآتُوهُمْ مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ} [النور: 33] وَقَالَ رَوْحٌ: عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قُلْتُ لِعَطَاءٍ: أَوَاجِبٌ عَلَيَّ إِذَا عَلِمْتُ لَهُ مَالًا، أَنْ أُكَاتِبَهُ؟ قَالَ: «مَا أُرَاهُ إِلَّا وَاجِبًا» وَقَالَهُ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ قُلْتُ لِعَطَاءٍ: تَأْثُرُهُ عَنْ أَحَدٍ، قَالَ: «لاَ» ثُمَّ أَخْبَرَنِي أَنَّ مُوسَى بْنَ أَنَسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ سِيرِينَ، سَأَلَ أَنَسًا، المُكَاتَبَةَ - وَكَانَ كَثِيرَ المَالِ - فَأَبَى، فَانْطَلَقَ إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: كَاتِبْهُ فَأَبَى، فَضَرَبَهُ بِالدِّرَّةِ، " وَيَتْلُو عُمَرُ: {فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا} [النور: 33] فَكَاتَبَهُ "

2560. وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ عُرْوَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: إِنَّ بَرِيرَةَ دَخَلَتْ عَلَيْهَا تَسْتَعِينُهَا فِي كِتَابَتِهَا، وَعَلَيْهَا خَمْسَةُ أَوَاقٍ نُجِّمَتْ عَلَيْهَا فِي خَمْسِ سِنِينَ، فَقَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ وَنَفِسَتْ فِيهَا: أَرَأَيْتِ إِنْ عَدَدْتُ لَهُمْ عَدَّةً وَاحِدَةً أَيَبِيعُكِ أَهْلُكِ، فَأُعْتِقَكِ، فَيَكُونَ وَلاَؤُكِ لِي، فَذَهَبَتْ بَرِيرَةُ إِلَى أَهْلِهَا، فَعَرَضَتْ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ، فَقَالُوا: لاَ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ لَنَا الوَلاَءُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اشْتَرِيهَا، فَأَعْتِقِيهَا، فَإِنَّمَا الوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ»، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «مَا بَالُ رِجَالٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، مَنِ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَهُوَ بَاطِلٌ شَرْطُ اللَّهِ أَحَقُّ وَأَوْثَقُ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

 ‏‏‏‏ اور (سورۃ النور میں) اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ  تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو بھی مکاتبت کا معاملہ کرنا چاہیں۔ ان سے مکاتب کر لو، اگر ان کے اندر تم کوئی خیر پاؤ۔ (کہ وہ وعدہ پورا کر سکیں گے) اور انہیں اللہ کے اس مال میں سے مدد بھی دو جو اس نے تمہیں عطا کیا ہے۔ روح بن عبادہ نے ابن جریح رحمہ اللہ سے بیان کیا کہ میں نے عطاء بن ابی رباح سے پوچھا کیا اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ میرے غلام کے پاس مال ہے اور وہ مکاتب بننا چاہتا ہے تو کیا مجھ پر واجب ہو جائے گا کہ میں اس سے مکاتبت کر لوں؟ انہوں نے کہا کہ میرا خیال تو یہی ہی کہ (ایسی حالت میں کتابت کا معاملہ) واجب ہو جائے گا۔ عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے عطاء سے پوچھا، کیا آپ اس سلسلے میں کسی سے روایت بھی بیان کرتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ (پھر انہیں یاد آیا) اور مجھے انہوں نے خبر دی کہ موسیٰ بن انس نے انہیں خبر دی کہ سیرین (ابن سیرین کے والد) نے انسؓ سے مکاتب ہونے کی درخواست کی۔ (یہ انس ؓ کے غلام تھے) جو مالدار بھی تھے۔ لیکن انس ؓ نے انکار کیا، اس پر سیرین، عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عمر ؓ نے (انس ؓ سے) فرمایا کہ کتابت کا معاملہ کر لے۔ انہوں نے پھر بھی انکار کیا تو عمر ؓہ نے انہیں درے سے مارا، اور یہ آیت پڑھی    غلاموں میں اگر خیر دیکھو تو ان سے مکاتبت کر لو۔ چنانچہ انس ؓنے کتابت کا معاملہ کر لیا۔

 

2560.

حضرت عائشہ  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حضرت بریرہ  ؓ ان کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور وہ ان سے مکاتبت کے معاملے میں تعاون طلب کرتی تھیں۔ ان کے ذمے پانچ اوقیے چاندی تھی جوانہوں نے مکاتبت کے سلسلے میں پانچ سال میں ادا کرنی تھی۔ حضرت عائشہ  ؓ  کو حضرت بریرہ  ؓ کے آزاد کرانے میں دلچسپی پیدا ہوگئی توانھوں نے اس سے فرمایا: اگر میں تمہاری اقساط یکمشت اداکردوں تو کیا تمہارے آقا تمھیں میرے ہاتھ بیچ دیں گے، پھر میں تمھیں آزاد کردوں گی اور تیری ولا بھی میرے لیے ہوگی؟ حضرت بریرہ  ؓ اپنے آقاؤں کے پاس گئیں، ان کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا تو انہوں نے کہا: نہیں، البتہ اس صورت میں قبول کرسکتے ہیں کہ ولا ہمارے پاس رہے۔ حضرت عائشہ  ؓ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے یہ واقعہ عرض کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اسے خرید کرآزادکردو، ولا اسی کے لیے ہوتی ہے جو آزاد کرے۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہوکر لوگوں سے خطاب فرمایا: ’’لوگوں کا کیا حال ہے، وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں؟ جوشخص ایسی شرط لگائے جو (جس کی اصل) اللہ کی کتاب میں نہ ہوتو وہ شرط باطل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ شرط ہی زیادہ صحیح اورزیادہ مضبوط ہے۔‘‘