تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ کسی غلام لونڈی کا اپنے آقا سے مکاتبت کا معاملہ کرنا جائز ہے اور وہ اپنا بدل کتابت یکمشت بھی ادا کر سکتا ہے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ نے حضرت بریرہ ؓ کو یکمشت ادائیگی کی پیشکش کی تھی اور وہ اسے قسطوں میں بھی ادا کر سکتا ہے جیسا کہ حضرت بریرہ ؓ نے اپنے مالکان سے قسطوں میں ادائیگی کا معاملہ طے کیا تھا اور یہ اقساط سالانہ، ماہانہ اور ششماہی بھی ہو سکتی ہیں۔ اس میں وسعت ہے۔ (2) قسطوں کو عربی زبان میں نجوم کہتے ہیں جو نجم کی جمع ہے۔ دراصل عرب حضرات حساب نہیں جانتے تھے، اس لیے انہوں نے تاروں کے طلوع پر مالی معاملات کو وابستہ کر رکھا تھا کہ جب فلاں تارہ طلوع ہو گا تو یہ معاملہ یوں ہو گا، اسی وجہ سے قسط کو نجم کہا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ حضرت بریرہ ؓ نے نو اوقیے چاندی کی ادائیگی پر اپنے آقاؤں سے مکاتبت کا معاملہ طے کیا تھا جو نو سالوں میں ادا کرنا تھی، چار اوقیے چاندی ادا کرنے کے بعد وہ تعاون لینے کے لیے حضرت عائشہ ؓ کے پاس آئیں جیسا کہ اس روایت سے واضح ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے ان کے بدل کتابت کو یکمشت ادا کرنے کی حامی بھر لی لیکن ولا اپنے لیے ہونے کی شرط کی، جب مالکان نے اس کا انکار کیا تو رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا جس کی تفصیل اس روایت میں ہے۔